۲۵ جولائی کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے مجموعی طور پر برتری حاصل کر لی ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے حکومت بنانے کی کوششوں کے آغاز کے ساتھ پہلی عوامی تقریر میں اپنی پالیسی ترجیحات کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مجلس عمل کے اجلاس کے بعد انتخابات کے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شدید مزاحمت کا عندیہ دیا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف نے انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی کے الزامات کے باوجود جیتنے والوں کو مبارکباد دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے الیکشن میں وسیع تر مبینہ دھاندلیوں کے حوالہ سے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کیا ہے جو ان سطور کی اشاعت تک انعقاد پذیر ہو چکی ہوگی اور اسی سے اپوزیشن جماعتوں کے اجتماعی موقف اور طرزعمل کا صحیح طور پر اندازہ ہوگا۔
جہاں تک انتخابات میں وسیع تر دھاندلیوں اور مختلف سطحوں پر بعض حساس اداروں کی مداخلت کے الزامات کا تعلق ہے وہ اس قدر زیادہ، متنوع اور مختلف الجہات ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو ان کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوئی نہ کوئی صورت نکالنا ہی ہوگی ورنہ نئی حکومت اعتماد اور اطمینان کے ماحول میں اپنے کام کا آغاز نہیں کر پائے گی۔ بہرحال اس سلسلہ میں چند روز تک ملک کے سیاسی مستقبل کا متوقع منظر واضح ہوگا اور ہم بھی اس کے ساتھ ساتھ اپنی گزارشات پیش کرتے رہیں گے۔
عام انتخابات کے نتائج سے پیدا شدہ صورتحال پر اس سرسری تبصرہ کے بعد آج کے کالم میں ایک اور اہم مسئلہ پر کچھ عرض کرنا ضروری اور بروقت معلوم ہوتا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ مذہبی آزادی کے عنوان سے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس کا آغاز ۲۹ جولائی کو واشنگٹن میں ہوگا اور وہ مسلسل تین روز تک جاری رہے گی۔ امریکی وزیر خارجہ جناب مائیک پومپیو کے اعلان کے مطابق چالیس سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ، مذہبی راہنما، دانشور، این جی اوز اور انسانی حقوق کے وکلاء اس میں شریک ہوں گے اور یہ اپنی نوعیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہر فرد کے لیے مذہبی آزادی اس کانفرنس کا اہم موضوع ہوگا اور یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آزادیٔ مذہب اور انسانی حقوق کے معاملات میں گہری دلچسپی کا مظہر ہوگی۔
مذہب کے بارے میں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے طرز عمل میں یہ تبدیلی ایک عرصہ سے محسوس ہو رہی ہے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد مسلسل دو صدیوں تک مغربی ممالک اور ان کے نظریاتی حلقوں کا مجموعی رخ ’’مذہب سے آزادی‘‘ کی طرف رہا ہے کہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کے ساتھ ساتھ سماجی اور اجتماعی معاملات میں مذہب کے تذکرہ اور حوالہ کی حوصلہ شکنی بھی ضروری سمجھی جاتی رہی ہے۔ بلکہ اس دوران مذہب اور مذہبی اقدار و روایات کی تضحیک و تحقیر بھی فکر و دانش کی علامت متصور ہوتی تھی مگر کچھ عرصہ سے مذہب تذکرہ ہونے لگا ہے اور مختلف حوالوں سے مذہب کی یاد مغربی دانشوروں کو ستانے لگی ہے جس کے باعث مذہبی آزادی، مذہبی رواداری، مکالمہ بین المذاہب، اتحاد بین المذاہب اور دہشت گردی میں مذہب کے مبینہ کردار جیسے مسائل اب مذہب ہی کے عنوان سے زیر بحث آتے ہیں۔ گزشتہ عشرے کی بات ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں چند روزہ قیام کے دوران بعض امریکی دانشوروں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ معاشرہ میں مذہب کی واپسی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مذہب سوسائٹی میں واپسی کے بعد کہیں سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں دخل اندازی دوبارہ تو شروع نہیں کر دے گا؟ میں نے عرض کیا کہ اگر اس مذہب کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے تو وہ ضرور ایسا کرے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر پیغمبر نے فرد کی اصلاح کے ساتھ قوم سے بھی خطاب کیا ہے اور معاشرہ کے اجتماعی معاملات میں راہنمائی کی ہے۔
بہرحال مذہبی امور میں امریکی حکومت کی یہ دلچسپی ہمارے لیے اس لحاظ سے خوشی کا باعث ہے کہ مغربی حکمرانوں کو مذہب کسی درجہ میں یاد تو آیا اور اس کی ضرورت و کردار کا احساس تو ہوا۔ اس لیے ہم امریکی وزارت خارجہ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ سے ایک درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ کانفرنس کا ایجنڈا ادھورا ہے، اگر اسے مکمل کر لیا جائے تو وہ آج کی معروضی صورتحال میں زیادہ نفع بخش ہو سکتی ہے، کیونکہ جب مذہب پر بات شروع ہوگئی ہے تو اس کے تمام ضروری پہلوؤں پر بات کرنا ہوگی، آج نہیں تو کل یہ مسائل آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اس لیے اس مکالمہ، گفتگو اور بحث و مباحثہ کا آغاز مجموعی تناظر میں کر لیا جائے تو اس کا گلوبل ہیومن سوسائٹی کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ چنانچہ ہمارے خیال میں مذہب کے نام پر اتنی بڑی تعداد اور اعلیٰ سطح پر جمع ہونے والے حکمرانوں کو جن امور کا پہلے مرحلہ میں سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے ان میں اہم ترین امور یہ ہیں:
- انسانی سماج سے مذہب کو بے دخل کرنے کے بعد گزشتہ دو صدیوں میں انسانی معاشرہ نے کیا فوائد حاصل کیے ہیں اور کیا نقصانات اٹھائے ہیں؟ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
- مختلف المذاہب انسانی سوسائٹی میں مذہب کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے آپس میں امن و بھائی چارہ کے ساتھ رہنے کے امکانات اور صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟
- کیا تمام مذاہب کی مثبت اور مشترکہ تعلیمات کو ریاست و حکومت کی پالیسی میں راہنما بنایا جا سکتا ہے؟
- دہشت گردی کے فروغ میں مذہب کے مبینہ کردار کے اسباب و عوامل کیا ہیں اور کیا باہمی اشتراک عمل سے ان اسباب و عوامل کا تدارک کیا جا سکتا ہے؟
- کیا انسانی سوسائٹی کو مذہب سے لاتعلق کر دینے کی پالیسی ناکام ہو جانے کی معروضی حقیقت کو تسلیم نہیں کر لینا چاہیے؟
کیونکہ ان اہم امور پر بحث و مباحثہ کے بغیر محض ’’مذہبی آزادی‘‘ کے اس نعرے کا مقصد وقت گزاری کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔