۱۱ اپریل کو بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام منعقد ہونے والی قومی ختم نبوت کانفرنس کے لیے ملک بھر میں تیاریاں جاری ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ کانفرنس ملک میں تحریک ختم نبوت کی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کا عنوان ثابت ہو گی۔ اس کانفرنس کے حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں جو اجتماعات ہوئے ہیں ان سے علماء کرام اور دینی کارکنوں میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوا ہے۔ یہ کانفرنس عوامی سطح پر بیداری پیدا کرے گی جو موجودہ حالات میں نہ صرف تحریک ختم نبوت بلکہ دینی جدوجہد کے دیگر اہم پہلوؤں کے بارے میں بھی عوام کو بیدار اور متحرک کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ہم ایک عرصہ سے اس ضرورت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ دینی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جس سطح کی عوامی بیداری اور کارکنوں میں ربط و نظم کی ضرورت ہے وہ کچھ عرصہ سے نظر نہیں آ رہی، جبکہ آنے والے دور میں بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے پیش نظر کارکنوں میں باہمی رابطہ و متحرک اور عوامی ماحول میں بیداری دینی جدوجہد کے ایک ناگزیر تقاضے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
اس سلسلہ میں ۴ اپریل کو گوجرانوالہ میں بھی مختلف دینی مکاتب فکر اور جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک اجلاس جامعہ قاسمیہ رتہ روڈ میں منعقد ہوا جس کی میزبانی مولانا قاری گلزار احمد قاسمی نے کی، جبکہ صدارت کا شرف مجھے بخشا گیا۔ یہ اجتماع جو ختم نبوت کنونشن کے عنوان سے ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ کے زیراہتمام منعقد ہوا، اس میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات نے شرکت کی اور ۱۱ اپریل کی لاہور کی کانفرنس میں شرکت کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کے مختلف تقاضوں اور ضروریات پر باہمی تبادلہ خیال ہوا۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد چیمہ نے تحریک ختم نبوت کے لیے اہل حدیث مکتب فکر کی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ محترم پروفیسر ساجد میر کے دورہ انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کے اس سب سے بڑے ملک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کی تحریک زور پکڑ گئی ہے اور علمائے کرام کی مختلف جماعتیں اس مقصد کے لیے متحد ہو گئی ہیں۔ قادیانیوں کا انڈونیشیا میں خاصا اثر و رسوخ بتایا جاتا ہے حتٰی کہ انڈونیشیا کی قومی اسمبلی میں بھی ان کی مؤثر نمائندگی موجود ہے اور سیاسی و سماجی حلقوں میں ان کی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ جس کے خلاف ردعمل کے طور پر مسلمانوں میں بھی بیداری پیدا ہوئی ہے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے۔ مولانا مشتاق احمد چیمہ نے گوجرانوالہ کی عمران کالونی میں قادیانیوں کے نئے عبادت خانہ کی تعمیر کا ذکر کیا اور بتایا کہ اہل حدیث رہنما حکیم محمد افضل اعجاز کی سربراہی میں اس سلسلہ میں مسلمانوں کے جذبات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کرنے کے لیے محنت ہو رہی ہے، جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام شامل ہیں۔
بریلوی مکتب فکر کے ممتاز رہنما مولانا قاری محمد سلیم زاہد نے، جو صوبائی سطح پر بین المذاہب امن کمیٹی کے چیئرمین ہیں، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے حکام بالا سے کہا ہے کہ قادیانی جب تک اپنے بارے میں دستور و قانون کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے، اس وقت تک ان کی حیثیت باغی کی ہے اور انہیں سرگرمیوں کی اجازت دینا قانون کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
اجلاس میں سی آئی ڈی کے ایک قادیانی انسپکٹر محمد امین کا تذکرہ ہوا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ فتومنڈ کے علاقہ عمران کالونی میں قادیانیوں کا مرکز تعمیر کروانے کے لیے سرگرم ہے اور اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کر کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کر رہا ہے۔ اس موقع پر اجلاس میں شریک قلعہ کالروالا کے قاری محمد افضل باجوہ نے بتایا کہ اسی انسپکٹر محمد امین نے عقیدہ ختم نبوت پر تقریریں کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف دہشت گردی کے دو مقدمے بنوائے تھے جن میں وہ عدالت سے باعزت بری ہو چکے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ کالروالا کے ایس ایچ او پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ قاری محمد افضل باجوہ تحریک فدایان ختم نبوت کے نائب صدر ہیں جو ضلع سیالکوٹ کے بریلوی مکتب فکر کے علمائے کرام اور کارکنوں نے چودھری شجاعت علی مجاہد کی سرکردگی میں قائم کر رکھی ہے اور مسلسل کام کر رہی ہے۔ چودھری شجاعت علی مجاہد تحریک ختم نبوت میں ہمارے پرانے اور سرگرم ساتھیوں میں سے ہیں اور قادیانیوں کے تعاقب کے محاذ پر ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے انسپکٹر محمد امین کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بزرگ رہنما جناب حافظ محمد ثاقب نے ۱۱ اپریل کی بادشاہی مسجد لاہور کی قومی ختم نبوت کانفرنس کے سلسلہ میں تیاریوں سے شرکائے اجلاس کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ضلع بھر میں علمائے کرام اور کارکنوں میں کام ہو رہا ہے اور گوجرانوالہ سے ایک بھرپور قافلہ کانفرنس میں شریک ہو گا۔
راقم الحروف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیا کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے مختلف مکاتب فکر کی دینی جماعتیں اپنے اپنے ماحول میں کام کر رہی ہیں، جو خوش آئند ہے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ باہمی رابطہ و مفاہمت کے ساتھ مشترکہ محنت کا ماحول بھی پیدا کیا جائے۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رہنما مولانا حافظ محمد ریاض خان سواتی نے اجلاس کو بتایا کہ میڈیا کے محاذ پر قادیانیوں کے تعاقب کے لیے ایک چینل شروع کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی طرف سے بہت جلد اس چینل کے آغاز کا اعلان ہونے والا ہے۔
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ قادیانیوں کے بارے میں دستور و قانون کی دفعات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور انہیں ختم کرنے یا ناکام بنانے کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ قرارداد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ دستور و قانون کے مطابق عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے تقاضے پورے کرے اور اس کے خلاف قادیانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے۔ قرارداد میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو یاد دلایا گیا کہ اس کے مرحوم قائد اور بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’’قادیانی پاکستان میں وہی پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اپنے لیے آخرت کی نجات کا سامان فراہم کیا ہے‘‘۔ اس لیے اگر پیپلز پارٹی کے دور میں قادیانیوں کے بارے میں دستور و قانون کی دفعات میں ردوبدل کی کوشش ہوئی تو یہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے موقف اور تاریخی فیصلے سے انحراف کا باعث ہو گی۔
۱۱ اپریل کو لاہور میں قومی ختم نبوت کانفرنس کے علاوہ ایک اور اہم دینی اور فکری اجتماع بھی ہو رہا ہے جو ۲ بجے ہمدرد ہال لٹن روڈ میں تحریک آزادی کے ممتاز رہنما مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی یاد میں ہو گا۔ جبکہ بادشاہی مسجد میں قومی ختم نبوت کانفرنس عصر کی نماز کے بعد شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہے گی۔
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ہماری ملی تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہیں جن کا شمار نہ صرف ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے دور حکومت میں برصغیر کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے جو مہم شروع کی تھی اور پادریوں کی ایک کھیپ پورے جنوبی ایشیا میں پھیلا دی تھی، اس یلغار کا مقابلہ کرنے والے علمائے کرام اور دانشوروں کی قیادت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے کی تھی اور اس وقت کے چیف پادری ڈاکٹر فنڈر کو میدان مناظرہ میں شکست فاش دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بلکہ ڈاکٹر فنڈر کے تعاقب میں استنبول تک جا پہنچے تھے جہاں ان کی آمد کی خبر سن کر ڈاکٹر فنڈر نے استنبول چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر فنڈر کے ساتھ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا تاریخی مناظرہ ۱۰، ۱۱، ۱۲ اپریل کو ہوا تھا جس میں مولانا کیرانویؒ نے بائبل میں تحریف کو ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں ڈاکٹر موصوف کو اعتراف کرنا پڑا کہ بائبل میں فی الواقع تحریف ہوئی ہے۔ مناظرہ کے لیے تین دن طے تھے مگر ۱۱ اپریل کو اس اعتراف شکست کے بعد تیسرے دن کے مناظرے کے لیے ڈاکٹر فنڈر کو آنے کی ہمت نہیں ہوئی اور اس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔
جامعہ اسلامیہ کامونکی میں کام کرنے والا ’’مطالعہ بین المذاہب سینٹر‘‘ مولانا عبد الرؤف فاروقی کی سربراہی میں مسیحیت اور دیگر مذاہب کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے اور اسلامی عقائد کے تحفظ کے لیے سالہا سال سے کام کر رہا ہے اور اس سینٹر میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی یاد میں کیرانوی ہال اور لائبریری قائم کی گئی ہے۔ اس مرکز کی طرف سے لاہور کے ہمدرد سینٹر میں ۱۱ اپریل کو ۲ بجے دن مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی یاد میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے جو نئی نسل کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھنے اور دینی جدوجہد کے علمی و فکری تقاضوں سے باخبر کرنے کے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان دونوں اجتماعات کو کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔