۲۵ فروری ۲۰۱۰ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود کی زیر صدارت ”سیرت نبویؐ اور عصری اقدار“ کے عنوان پر سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں راقم الحروف کو مہمان خصوصی کے طور پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی اور صدر اجلاس کے علاوہ جناب اکبر ثاقب اور جناب ناصر زیدی نے بھی خطاب کیا۔ راقم الحروف کی گزارشات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست جناب اکبر ثاقب نے ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید عقلیت پسندی“ کے عنوان پر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر مفید گفتگو فرمائی ہے۔ یہ میرا بھی دل پسند موضوع ہے، اس لیے اس گفتگو میں شرکت سے محروم نہیں رہنا چاہتا اور اپنے موضوع کی طرف آنے سے پہلے ”دخل در معقولات“ کے طور پر چند جملوں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو میں بھی شریک ہونا چاہتا ہوں۔
عقل اور علم یا عقل اور وحی کے درمیان تقابل اور بالادستی کے حوالہ سے صدیوں سے بحث جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی، لیکن مجھے یہ بحث پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دل اور دماغ کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے اور بحث کرنے والے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دل اور دماغ میں سے کس کو باقی رہنا چاہیے یا کس کو ترجیح اور بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بغیر بھی ہمارا گزارا نہیں ہے، اس لیے بات تقابل کی نہیں، بلکہ توازن کی ہے اور ان کے درمیان بیلنس قائم کرنے کی ہے۔
جہاں تک عقل اور وحی کے درمیان توازن اور بیلنس کی بات ہے تو اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عقل اور اس کے نتائج کو کسی ایک جگہ پر قرار نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ عقل مشاہدات، مدرکات اور تجربات و تاثرات کی بنیاد پر نتائج قائم کرتی ہے اور ان کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے فیصلے اور نتائج بھی بدلتے رہتے ہیں۔ عقل میں مسلسل ارتقاء رہتا ہے اور تغیر پذیر کیفیت کے ساتھ وہ آگے بڑھتی رہتی ہے، کسی حتمی نتیجے تک وہ نہ کبھی پہنچی ہے اور نہ ہی اس کے کسی فیصلے اور نتیجے کو کبھی حتمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جبکہ وحی مکمل ہو چکی ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کو مکمل قرار دے کر اس کے بعد وحی کا دروازہ بند کیا جا چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وحی میں اب کسی اور اضافے کا امکان نہیں ہے اور وہ اپنی آخری منزل تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے ظاہر بات ہے کہ اسی تناظر میں وحی اور عقل کے درمیان توازن کی صورت یہی ہے کہ وحی کو بالادستی حاصل ہو، اس لیے کہ وہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے اور عقل کو ابھی بہت آگے بڑھنا ہے اور بہت سے مراحل عبور کرنے ہیں۔
اس گزارش کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طرزِ عمل عصری اقدار کے حوالہ سے کیا تھا؟ آج کی کانفرنس کا اصل موضوع بھی یہی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور عصری اقدار کے حوالہ سے بنیادی اور اساسی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نسلِ انسانی کو ایک ہمہ گیر ثقافتی انقلاب سے ہمکنار کیا ہے اور ایک ایسا ثقافتی انقلاب بپا کیا ہے جس نے دنیا کی ہر قوم اور ہر علاقے کو متاثر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ اس وقت کی عرب ثقافت سے بھی تھا اور دیگر بین الاقوامی ثقافتوں سے بھی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت اور انقلاب میں صرف عربوں سے خطاب نہیں کیا، بلکہ ”ایہا الناس“ کہہ کر ساری نسل انسانی سے مخاطب ہوئے ہیں اور پوری انسانی سوسائٹی کے لیے ہدایات و تعلیمات پیش کی ہیں۔ لیکن کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی عرب ثقافت اور دیگر ثقافتوں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بات کو مسترد کرنے اور اس وقت کی موجود ثقافت کو کلیتاً مسترد کرنے کی بجائے چھانٹی کا راستہ اختیار کیا تھا اور جہاں بہت سی اقدار و روایات کی نفی فرمائی تھی، وہاں کچھ اقدار و روایات کو باقی بھی رہنے دیا تھا اور ان کی توثیق و تحسین فرمائی تھی۔ مثلاً
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر و شرک اور بت پرستی کو مکمل طور پر مسترد کیا اور پورے جزیرۃ العرب کو اپنی زندگی میں ہی بت پرستی، بت خانوں اور بتوں سے پاک کر دیا۔
- اسی طرح رنگ و نسل اور زبان و قومیت کے فرق و امتیاز کی نفی کی اور اس بات پر تفاخر کو جاہلیت قرار دے کر اس کا خاتمہ فرما دیا۔ یہاں بھی میں عرض کرنا چاہوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قومیت کے فرق کو بالکل ختم نہیں کیا، بلکہ اس کے اصل دائرے میں اس کو محدود کیا، جو قرآن کریم نے اس کے بارے میں بتایا کہ یہ فرق و امتیاز باہمی تفاخر اور برتری کے لیے نہیں اور ایک دوسرے کی تحقیر اور بالادستی کے لیے نہیں، بلکہ صرف تعارف کے لیے ہے اور تعارفی تقاضوں سے ہٹ کر کسی اور مقصد کے لیے اس فرق و امتیاز کا کوئی جواز نہیں ہے۔
- فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا، سود، شراب اور قمار جیسی لعنتوں سے بھی عرب معاشرے کو پاک کیا اور ان جاہلی اقدار کا خاتمہ کر کے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ تاریخی اعلان فرمایا کہ ”جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔“
یہ ان بہت سی جاہلی اقدار میں سے چند ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جاہلی اقدار و روایات کے ساتھ بالکل ختم کر دیا۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا، مثلاً
- ”حلف الفضول“ جاہلی دور کا ایک معاہدہ تھا، جس میں باہمی یہ طے کیا گیا تھا کہ ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالموں کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے دور سے پہلے اپنے چچا زبیر بن عبد المطلب کے ساتھ اس معاہدہ کی تجدید میں شریک ہوئے اور اس پر ہمیشہ خوشی کا اظہار کرتے رہے۔
- اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب مسیلمہ کذاب کے دو قاصد آئے اور یہ بتایا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے ہیں اور اس کے بعد مسیلمہ کو بھی اللہ کا نبی مانتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ”لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت أعناقكما“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سفیروں اور قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔
گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قانون کے مطابق تو وہ دونوں واجب القتل تھے، لیکن اس وقت کے ایک بین الاقوامی قانون کے احترام میں ان کو قتل کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گریز کیا۔
آپ اسے یوں تعبیر کر لیں کہ اس دور کی ثقافت میں جو باتیں اچھی تھیں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیں اور جو بری تھیں ان کو مسترد کر دیا، یا جو باتیں سوسائٹی کے لیے مفید تھیں انہیں قائم رکھا اور جو نقصان دہ تھیں انہیں ختم کر دیا۔ یہاں سوسائٹی کے لیے مفید یا نقصان دہ ہونے کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام بھی اپنے احکام میں سوسائٹی اور افراد کے نفع و نقصان کا لحاظ رکھتا ہے، لیکن نفع و نقصان کا دائرہ اس کے نزدیک صرف یہ دنیا اور اس کی عارضی زندگی نہیں ہے، بلکہ اس میں زندگی کے اگلے مراحل یعنی برزخ، حشر اور جنت و جہنم اس میں شامل کر کے اس کے وسیع تناظر میں سوسائٹی یا فرد کے نفع و نقصان کا تعین کرتا ہے اور اس کے مطابق احکام و قوانین ترتیب دیتا ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے اسلام کے احکام و قوانین دوسرے نظاموں سے فطری طور پر مختلف ہیں اور آج کی عالمی ثقافتی کشمکش میں اس کو ملحوظ رکھنا بطورِ خاص بہت ضروری ہے۔
اس موقع پر میں ایک اور واقعہ کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا، جو بخاری شریف میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہمارا ماحول یہ تھا کہ ہم بیوی یا گھر کی کسی خاتون کو یہ حق نہیں دیتے تھے کہ وہ ہمیں کسی بات پر ٹوکے اور ہمارے کسی فیصلے میں مداخلت کرے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ آئے تو انصارِ مدینہ کی عورتوں کو دیکھا کہ وہ خاوند کو مشورہ بھی دیتی ہیں، کسی بات پر ٹوکتی بھی ہیں، کسی بات پر جواب بھی دیتی ہیں اور ناراضگی کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر ہماری یعنی مہاجرین کی عورتیں بھی ان کا رنگ پکڑنے لگیں۔ چنانچہ مجھے ایک دن کسی بات پر میری بیوی نے ٹوکا تو مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ میرے معاملات میں مداخلت کا تجھے کیا حق حاصل ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے ڈانٹنے کی بجائے اپنی بیٹی کی خبر لو کہ ازواجِ مطہرات جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گھریلو معاملات میں کسی بات پر ٹوک دیتی ہیں اور کبھی سارا سارا دن ناراضگی میں بھی گزار دیتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ سن کر سخت پریشانی ہوئی اور اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں زیادہ فکر لاحق ہوئی۔ میں فوراً ان کے پاس پہنچا اور ان سے تصدیق چاہی، انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوتا ہے۔ میں نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب نہ دیا کرے اور اگر کچھ چاہیے تو مجھ سے مانگ لیا کرے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سمجھانے کے بعد ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، جو رشتہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کزن لگتی تھیں، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھانا چاہا تو انہوں نے آگے سے سختی سے ڈانٹ دیا اور کہا کہ ”اے عمر! آپ ہر معاملہ میں مداخلت کرتے ہیں، حتیٰ کہ میاں بیوی کے معاملات میں بھی مداخلت کرنے لگے ہیں؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات سن کر میرا حوصلہ ٹوٹ گیا اور کسی اور سے بات کرنے کی بجائے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری رپورٹ ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ ”ھی ام سلمۃ“ وہ آخر ام سلمہ ہے۔ اس کے علاوہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ تفصیلی روایت بخاری شریف کی ہے، میں نے اس کا خلاصہ عرض کیا ہے اور اس کے حوالہ سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب مختلف ثقافتیں گڈمڈ ہوتی ہیں اور ثقافتی روایات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو نئی روایات جنم لیتی ہیں، ایسے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوہ کیا ہے؟ یہ روایت اس سلسلہ میں ہماری راہ نمائی کرتی ہے۔
آج بھی عالمی سطح پر ثقافتی کشمکش کا سامنا ہے، تہذیبیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں اور ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں، اس موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنا چاہیے اور اعتدال و توازن کے ساتھ دنیا پر یہ بات واضح کر دینا چاہیے کہ جو بات وحی الٰہی، آسمانی تعلیمات اور قرآن و سنت کے احکام کے دائرہ میں قابلِ قبول ہو سکتی ہے ہمیں اسے اختیار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے، لیکن وحی الٰہی، آسمانی تعلیمات اور قرآن و سنت کی طے کردہ حدود سے ہٹ کر کوئی بات کسی صورت میں قبول نہیں ہو گی۔