۱۱ ستمبر کو ہمارے ہاں ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ تھی جبکہ سعودی عرب میں ۹ ذی الحجہ یعنی ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جب دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں حجاج کرام میدان عرفات میں جمع تھے۔ مجھے چیچہ وطنی سے واپس گوجرانوالہ آنا تھا، ملتان سے گوجرانوالہ ڈائریکٹ آنے والی بس پر سیٹ بک تھی کہ میسج ٹی وی کے جناب عبد المتین کے فون نے پروگرام بدل دیا اور مجھے لاہور میں چار پانچ گھنٹوں کے لیے رکنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ میسج ٹی وی کی سیٹلائٹ کے ذریعہ براہ راست نشریات کا آغاز ہوگیا ہے اور کل سے ہم حج بیت اللہ کے مناظر اپنے دنیا بھر کے ناظرین کو براہ راست دکھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعوت دی کہ میں بھی ان کے لاہور اسٹوڈیو میں آج کسی وقت آؤں اور اس پروگرام میں شرکت کروں۔
میرے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات تھی اس لیے کہ یہ میرے پرانے خوابوں کی تعبیر ہے بلکہ ہم بھی ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے تحت اس کے لیے کچھ عرصہ قبل کوششیں کر چکے ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے تحت اب سے دو عشرے قبل الیکٹرانک میڈیا کو اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلام دشمن سرگرمیوں کے تعاقب کا ذریعہ بنانے کی ضرورت و اہمیت پر لندن میں نہ صرف متعدد سیمینار کیے گئے تھے بلکہ ایک فرم سے اس کی فیزی بیلیٹی رپورٹ تیار کرا کے اس کے عملی امکانات کا جائزہ بھی لیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ ’’وڈیو وژن‘‘ کے نام سے مرتب ہوئی تھی اور اس پر عملدرآمد کے لیے ہم نے جن دوستوں کو مشاورت کے نظام میں شریک کیا تھا ان میں ہمارے ایک دوست کامران رعد بھی تھے جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، لندن میں ایک عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم کے خوشہ چینوں میں سے ہیں، وہ بھی اپنے دل میں یہی جذبہ رکھتے تھے۔ ہم نے مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی راہ نمائی میں اس کے لیے مختلف سطحوں پر درجن بھر مشاورتی نشستیں کی ہوں گی جن سے یہ بات ہم پر واضح ہوئی کہ یہ کام ضروری بھی ہے اور قابل عمل بھی لیکن ہم لوگ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ ’’لکل فن رجال‘‘ کہ ہر کام کے لیے الگ افراد ہوتے ہیں اور ہم لوگ اس کام کے نہیں ہیں۔
دیگر بہت سے امور کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ وسائل کا بھی تھا جو ہم جیسے ’’فقیر منش‘‘ لوگوں کے بس میں نہیں تھا۔ البتہ جب ہماری اس تگ و تاز کی شہرت پھیلی تو اسلامی دنیا کی بعض عالمی لابیوں کی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ وسائل کی فکر نہ کریں آپ کام شروع کریں وہ مہیا ہو جائیں گے۔ مگر ہم آج کی دنیا کی نظر میں ’’الٹی کھوپڑی‘‘ کے لوگ شمار ہوتے ہیں، ہم نے سوچا کہ اگر کسی لابی کے لیے ہی کام کرنا ہے تو اس سے نہ کرنا بہتر ہے۔ جبکہ کامران رعد صاحب نے ہمت نہ ہاری اور چپکے چپکے اس کی تگ و دو میں لگے رہے اور ان کی سالہا سال کی یہ محنت رنگ لائی کہ وہ ’’میسج ٹی وی ‘‘ کے نام سے نشریات کا سلسلہ کئی برسوں تک انٹرنیٹ کے ذریعہ جاری رکھنے کے بعد اب اسے براہ راست آن ایئر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔ اس دوران ان سے مشاورت کے دائرہ میں میرا مسلسل رابطہ رہا اور ہم ان کے لیے دعا گو رہے۔
چنانچہ جب ان کے لاہور اسٹوڈیو کے سب سے زیادہ متحرک ساتھی عبد المتین صاحب نے حج بیت اللہ کے مبارک موقع پر کی حج کی نشریات کے ساتھ میسج ٹی وی کے براہ راست پروگراموں کے آغاز کی خبر دی تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور میں لاہور پہنچ کر ملتان روڈ کی مکی مسجد میں مولانا محمد رمضان کے ہاں تھوڑی دیر آرام اور کھانا کھانے کے بعد اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ مولانا موصوف حضرت والد محترمؒ کے شاگردوں میں سے ہیں، بہت محبت و شفقت فرماتے ہیں، کھلاتے پلاتے ہیں اور آرام کا موقع مہیا کرتے ہیں اس لیے جنوبی لاہور میں یہ مکی مسجد میرا اہم اسٹاپ ہوتا ہے۔
میسج ٹی وی کے دفتر میں حاضری ہوئی تو کامران رعد صاحب اپنی رفقاء بھائی فاروق صاحب، عبد المتین صاحب، ڈاکٹر محمد الیاس صاحب (اسلام آباد)، حافظ محمد بلال فاروقی، اور دیگر ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔ حج بیت اللہ کی میدان عرفات سے براہ راست نشریات کا سلسلہ جاری تھا اور امیر حج کا خطبہ شروع ہونے والا تھا جو گزشتہ تین عشروں سے سعودی عرب کے مفتی اعظم ارشاد فرما رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ ان کی علالت کی وجہ سے امام حرمین فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ ہم نے خطبہ براہ راست سنا اور دعا میں شریک ہوئے۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان میں اضافہ ہو رہا تھا کہ امام محترم میدان عرفات میں دعا فرما رہے ہیں اور ہم لاہور میں بیٹھے انہیں براہ راست دیکھ اور سن رہے ہیں اور ان کی دعاؤں پر آمین بھی کہہ رہے ہیں۔
پروگرام کے میزبان ڈاکٹر محمد الیاس صاحب تھے، انہوں نے ’’خطبہ حج‘‘ پر اپنے تبصرہ میں مجھے شریک کیا اور ان کے سوال پر میں نے عرض کیا کہ یہ خطبہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاریخی خطبہ کے تسلسل میں ہے جسے ہم ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس میں آپؐ نے نسل انسانی اور ملت اسلامیہ کی راہنمائی کے لیے بہت سی اصولی اور بنیادی باتیں ارشاد فرمائی تھیں جن میں سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ آنحضرتؐ نے انسانی خواہشات کی پیروی کو جاہلیت جبکہ وحی الٰہی کی پیروی کو علم اور نور قرار دیا تھا۔ مگر آج کی دنیا کا معاملہ اس سے بالکل الٹ ہے کہ آسمانی تعلیمات سے انحراف اور انسانی خواہشات کی پیروی کو روشن خیالی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اعلان فرمایا تھا کہ کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ مگر آج جاہلیت کی وہ ساری قدریں ایک بار پھر کلچر، تمدن اور سولائزیشن کے ٹائٹل کے ساتھ انسانی سماج کا دوبارہ حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لے جانے اور جاہلی اقدار سے نجات کے لیے جدوجہد کریں۔
اس کے ساتھ ہی میسج ٹی وی کی براہ راست نشریات کے آغاز پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ’’عکاظ کے میلے‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔ عکاظ کا میلہ جاہلی دور کے بڑے تجارتی اور ثقافتی میلوں میں سے تھا جہاں سب کچھ ہوتا تھا مگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس خود وہاں تشریف لے جا کر اسلام کی دعوت دیتے تھے اور قرآن کریم لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔