سنت ابراہیمیؑ کا اصل سبق

   
۴ جنوری ۱۹۷۴ء

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں بجا طور پر فرمایا ہے کہ

’’حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں قومی و دینی معاملات میں ان کے عظیم جذبۂ ایثار و قربانی کو مشعلِ راہ بنانا چاہیئے کیونکہ قربانی اور ایثار کے عظیم جذبہ کے ذریعہ ہی ہم دین و ملت کی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں۔‘‘

قربانی دراصل سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی اس عظیم سنت کی یاد ہے جب اللہ رب العزت نے آپؑ کو حکم دیا کہ اپنی عزیز ترین متاع، لخت جگر اور نورِ نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو میرے نام پر ذبح کر دو۔ پھر دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے سامنے جھک گئے اور چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ بوڑھے باپ نے نوجوان بیٹے کو زمین پر لٹا رکھا ہے، باپ کے ہاتھ میں چھری ہے اور وہ آنکھیں باندھے ہوئے بیٹے کے گلے پر چھری چلا رہا ہے۔ بیٹا خوش ہے کہ اللہ کی راہ میں ذبح ہو رہا ہوں اور باپ بھی راضی ہے کہ اپنے بڑھاپے کی سب سے قیمتی دولت کو مولا کی درگاہ میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ اللہ کیسا سہانا منظر ہوگا جب غیب سے ندا آئی اے ابراہیمؑ! آپ نے خواب پورا کر دیا، اب چھری بیٹے کی گرن سے اٹھا لو، آپؑ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس سنت کو زندہ و تابندہ کر دیا۔ کروڑوں مسلمان ہر سال اس ’’ذبح عظیم‘‘ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم سنت ہر سال ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے کہ اگر خدا کی دوستی چاہتے ہو تو ہر چیز کو اس کی رضا پر قربان کر دینے کے لیے تیار رہو۔ اگر دنیاوی اسباب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے طلب گار ہو تو ایثار و قربانی اور اطاعت و وفا کی راہوں پر گامزن ہو جاؤ۔ اور اگر اللہ رب العزت کی بے پایاں خصوصی رحمتوں کے متمنی ہو تو اس کے ہر حکم اور ہر اشارہ پر سر تسلیم خم کر دو۔ قربانی محض ایک رسم نہیں کہ جانور خریدا اور ذبح کر دیا۔ یہ عبادت ہے، اس میں ایک عظیم سبق ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ اور یہ اس سبق کو بھولنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم دنیا میں عظیم افرادی قوت ہوتے ہوئے بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔

آج ہمارے پاس کونسی چیز نہیں؟ افرادی قوت بھی موجود ہے، وسائل بھی میسر ہیں، دولت کی بھی کمی نہیں اور ارباب فہم و دانش بھی موجود ہیں۔ پھر ہم کیوں سرگرداں ہیں؟ ہمیں اپنا راستہ اور منزل کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر سر جھکانے اور دین و ملت کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کی ادا بھلا دی ہے۔ آج بھی ہم اطاعت خداوندی اور ایثار و قربانی کا راستہ اختیار کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت آگے بڑھ کر ہاتھ تھامے گی۔

سنت ابراہیمی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے انفرادی و اجتماعی طرز زندگی پر نظر ثانی کریں۔ اپنی خواہشات اور جھوٹے نفسانی تقاضوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ملت کے اجتماعی مفاد کو اپنے فیصلوں کا معیار بنائیں، اور دین اسلام اور ملت اسلامیہ کی سربلندی اور مفاد کی خاطر کسی بھی قربانی سے گریز نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter