تصوف اور روشن خیالی

   
تاریخ : 
نومبر ۲۰۰۶ء

گزشتہ دنوں پاکستان میں تصوف کے فروغ کے لیے قومی سطح پر ایک کونسل تشکیل دی گئی ہے جس کا سرپرست اعلیٰ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو چنا گیا ہے، جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اس کے چیئرمین ہوں گے۔ اس کونسل کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا ہے کہ رواداری، انسان دوستی اور اعتدال پسندی کو عام کرنے میں ’’صوفی اسلام‘‘ نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے اور آج ان باتوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اس لیے پاکستان میں تصوف کو فروغ دینے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور یہ کونسل انہی کوششوں کا اہتمام کرے گی۔

تصوف اسلام کے مختلف شعبوں میں ایک اہم شعبہ ہے جس نے عام مسلمان کا تعلق خدا سے جوڑنے، انسانوں میں باہمی روا داری قائم کرنے اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے اور اس مقصد کے لیے تصوف کی اقدار کو عام کرنے کی کوشش کسی بھی سطح پر کی جائے تو قابل قدر ہے، لیکن موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اس کے پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو ’’دال میں کالا کالا‘‘ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک تقسیم عوامی ذہنوں میں ’’مولوی کا اسلام‘‘ اور ’’صوفی کا اسلام‘‘ کے نام سے بہت پرانی چلی آرہی ہے جو اس بنیاد پر ہے کہ مولوی ہمیشہ قانون اور ضابطہ کی بات کرتا ہے، دوزخ سے ڈراتا رہتا ہے اور اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، اس لیے وہ سخت اور متشددانہ اسلام کا علمبردار ہے۔ جبکہ صوفی ہمیشہ محبت پیار کی بات کرتا ہے، امید کا ذہن دیتا ہے، عفو و درگزر کی تلقین کرتا ہے اور گناہوں سے چشم پوشی کا پیغام دیتا ہے، اس لیے اس کی بات زیادہ توجہ کے قابل ہے۔

حالانکہ یہ تقسیم لوگوں کی خودساختہ ہے، اصل میں مولوی اور صوفی دونوں اسلام ہی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام میں جہاں عفو و درگزر ہے، چشم پوشی ہے، امید ہے اور محبت و پیار ہے، وہاں قانون و ضابطہ بھی ہے، احکام و مسائل بھی ہیں اور سزا و جزا کا نظام بھی ہے، ان میں سے کسی بات کو بھی نظر انداز کرنے سے اسلام ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن موجودہ عالمی تناظر میں ’’صوفی کا اسلام‘‘ ایک اور وجہ سے پذیرائی کے قابل سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ مغرب اور اسلام کی تہذیبی اور نظریاتی کشمکش میں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ:

  • مسلمانوں میں مغرب کے خلاف جو جذبات پائے جاتے ہیں اور ان میں جس طرح شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے اصلاً اس کی وجہ مولوی ہے۔ کیونکہ وہ اسلام کی بات فقہی ضابطوں کے حوالہ سے کرتا ہے، اسلام کو عبادات و عقائد کے ساتھ ساتھ معاشرت، خاندان، سیاست و معیشت اور قانون و عدالت کے معاملات میں بھی دخیل قرار دیتا ہے، اور فرد کی بجائے اجتماعیت اور سوسائٹی سے خطاب کرتا ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کو مغرب کے فلسفہ و نظام سے متنفر کرنے اور مسلمانوں کو مغرب سے محاذ آرائی پر تیار کرنے کا باعث ہے۔
  • اس کی بجائے صوفی صرف فرد سے مخاطب ہوتا ہے اور اس کی اصلاح و تربیت کی بات کرتا ہے، اس لیے اس کا اسلام مغرب کے فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کے غلبہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے اور اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

مغرب کے دانشوروں نے طویل بحث و تمحیص اور تحقیق و تجزیہ کے بعد اپنے قائدین کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ عالم اسلام میں ’’صوفی اسلام‘‘ کے فروغ کے لیے کام کریں اور صوفی کو ملاّ کے سامنے لا کر مولوی کے اسلام کو کمزور کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ اس پر مغربی دانشوروں کا تجزیہ و تحقیق اور ان کی آرا و تجاویز عالمی پریس کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ مغرب عالم اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات و معاملات کی ترجیحات طے کرنے میں اب اسی کو بنیاد بنا رہا ہے اور ہمارے خیال میں پاکستان میں ’’صوفی اسلام‘‘ کے فروغ کے لیے قائم ہونے والی اعلیٰ سطحی کونسل اسی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ مغرب کی خام خیالی اور مغالطہ ہے کیونکہ مغرب کے اس طرز عمل سے مسلم امہ میں ایک اور باہمی کشمکش کے جنم لینے کے امکانات کے باوجود اس امر کا کوئی امکان موجود نہیں ہے کہ وہ ’’صوفی کا اسلام‘‘ کا نعرہ لگا کر ان مقاصد کو حاصل کر سکے گا جو اس مہم میں اس کے پیش نظر ہیں اور ہم اس حوالہ سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے۔

  1. اس نوع کی کشمکش اس سے قبل بھی تاریخ میں دکھائی دیتی ہے جب اسی جنوبی ایشیا میں داراشکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کی کشمکش سامنے آئی تھی، یہ دونوں حقیقی بھائی تھے اور اپنے باپ شاہجہان کے بعد اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آگئے تھے۔ عام طور پر اسے دو بھائیوں میں اقتدار کی جنگ سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ دو نظریات کی جنگ تھی۔ ایک طرف اکبر بادشاہ کے روشن خیال ’’دین الٰہی‘‘ کی حمایت میں تصوف اور انسانیت دوستی کے عنوان سے مسلمانوں کے دینی تشخص کو مسلم ہندو مشترکہ معاشرہ میں تحلیل کر دینے کی مہم تھی جس کی قیادت داراشکوہ کے ہاتھ میں تھی، اور دوسری طرف مسلم تشخص اور امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے سوسائٹی میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا عزم تھا جو اورنگزیب عالمگیر کے پیش نظر تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بھائی تو یقیناً تھے لیکن حقیقت میں دو نظریوں کی علامت تھے۔ اس کشمکش میں اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں مولوی کے اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور انسان دوستی کے عنوان سے تصوف کے نام پر مسلمانوں کے دینی تشخص کو تحلیل کر دینے کی مہم شکست سے دو چار ہوئی۔

    آج بھی وہی صورتحال ہے اور وہی ادارے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت ہندو مسلم معاشرہ میں فرق و امتیاز کو ختم کرنے کا پروگرام تھا اور اب اس کا دائرہ وسیع کرکے عالمی سطح پر تمام معاشروں کو مذہبی امتیاز سے ہٹ کر یکجا کرنے کا ایجنڈا ہے جس کی راہ میں مسلمانوں کا دینی تشخص و امتیاز سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح اس دور میں مسلمانوں کے مذہبی امتیاز اور دینی تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں زمینی حقائق کے سامنے دم توڑ گئی تھیں اسی طرح اب بھی مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص اور دینی امتیاز سے محروم نہیں کیا جا سکے گا۔

  2. اس سلسلہ میں دوسری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کو صوفیاء کرام کے بارے میں غلط فہمی ہے کہ وہ صرف فرد کی بات کرتے ہیں اور سوسائٹی اور اجتماعیت ان کی تگ و تاز کے دائرہ سے خارج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفیاء کرام کا اصل میدان فرد کی اصلاح اور نفس کا تزکیہ ہے، وہ اللہ اللہ سکھاتے ہیں، انسان کو اخلاق رذیلہ سے نجات دلاتے ہیں، اس کی تربیت و اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور محبت و رحمت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن معاشرہ کی اجتماعی حالت اور ملی ضروریات کبھی صوفیاء کرامؒ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہیں اور جب بھی امت کو ضرورت پڑی ہے رات کی تاریکی میں دلوں پر اللہ اللہ کی ضربیں لگانے والے صوفیاء کرام ؒنے دن کی روشنی میں ظلم و کفر اور جبر و استبداد کے سامنے صف آرا ہونے میں کبھی جھجھک نہیں دکھائی۔
    • حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے دور کے سب سے بڑے صوفی تھے لیکن اکبر بادشاہ کے روشن خیال ’’دین الٰہی‘‘ کے سامنے سب سے مضبوط دیوار ثابت ہوئے اور بالآخر اسے شکست سے دوچار کیا۔
    • حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ صوفیاء کرام کے سرخیل تھے لیکن احمد شاہ ابدالی ؒ کے ہاتھوں ہندو مرہٹوں کو پانی پت کے میدان میں خوفناک شکست دلوانے اور فرنگی استعمار کے خلاف فکری اور جہادی تحریک کا ماحول پیدا کرنے میں ان کا کردار تاریخ کے ایک مستقبل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
    • حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ علماء اور مشائخ کے پیر تھے لیکن جب فرنگی جبر و استبداد کا بازار گرم ہوا تو وہی پیر طریقت شاملی کے محاذ پر انگریزوں کے خلاف مجاہدین کی قیادت کر رہے تھے۔
    • حضرت پیر صبغت اللہ شہیدؒ (پیر صاحب آف پگارا) اپنے وقت کے بڑے صوفی تھے مگر انگریزی سامراج کے خلاف انہوں نے مجاہدین کی اس شان سے قیادت کی کہ بالآخر تختہ دار کو چوم کر جام شہادت نوش فرما لیا۔
    • فقیر ایپیؒ بھی اپنے دور کے ایک صوفی اور روحانی پیشوا تھے لیکن جب ملی غیرت کا سوال سامنے آیا تو وہ اپنی تسبیح اور مصلّی سمیت میدان جنگ میں مدتوں انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔

اس قسم کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ صوفیاء کرام بظاہر فرد کی اصلاح اور تربیت ہی میں مصروف رہے لیکن جب بھی سوسائٹی اور اجتماعیت کو ضرورت پڑی وہ مسلمانوں کے دینی تشخص اور اسلامی احکام و اقدار کے تحفظ کے لیے بلا تامل میدان عمل میں کود پڑے۔ اس لیے ہمارے خیال میں مغرب اس حوالہ سے مغالطہ اور خود فریبی کا شکار ہے اور اسے بھی اس میدان میں اس کے سوا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا جو اکبر بادشاہ کے روشن خیال ’’دین الٰہی‘‘ کی حمایت میں داراشکوہ کو اورنگزیب عالمگیر ؒ کے سامنے لانے والوں کے حصے میں آیا تھا، یہ تاریخ کا عمل ہے اور جب تاریخ خود کو دہرانے پر آتی ہے تو نتائج کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter