(۱۰ ستمبر کو مدنی مسجد نوٹنگھم کی دس سالہ تقریب اور ۱۳ ستمبر کو مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں ایک اجتماع سے خطاب کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کا آغاز ہی مسجد سے ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نسلِ انسانی کی آبادی کا آغاز ’’بیت اللہ‘‘ کی تعمیر سے کیا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر سے ملتِ اسلامیہ کی معاشرتی زندگی کا آغاز فرمایا۔
مسلم سوسائٹی میں مسجد صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ تعلیم گاہ اور ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی و معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں جہاں مسجد میں عبادت اور دینی تعلیم ہوتی تھی، وہاں شوریٰ کے اجلاس بھی مسجد میں ہوتے تھے، عام لوگوں کے ساتھ اجتماعی مشاورت کا اہتمام بھی مسجد میں ہوتا تھا، مقدمات کے فیصلے مسجد میں ہوتے تھے، نکاح مسجد میں ہوتے تھے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین لوگوں کی مشکلات و مسائل اور ضروریات سے آگاہی کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے۔
اس لیے مسجد عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ مدرسہ، مشورہ کا مرکز، عدالت، میرج ہال اور کمیونٹی سنٹر بھی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہمارے اجتماعی معاملات مسجد میں طے پاتے رہے، خیر و برکت کا تسلسل قائم رہا، اور جب ہم نے عبادت اور دینی تعلیم کے علاوہ اجتماعی زندگی کے باقی شعبوں کو مسجد سے الگ کر لیا، اس وقت سے ہم مسلسل زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔
نئی نسل اگر ہماری غفلت اور بے توجہی کے باعث اپنے دین سے بے گانہ ہو گئی تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہو گی، اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دین اور کلچر کے ساتھ نئی نسل کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کریں۔ دینی تعلیم اور قرآن و سنت کے ساتھ نئی پود کا کسی نہ کسی انداز سے تعلق قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ مغربی کلچر میں ضم ہو جانے والی نسل کو مسلمان رکھنا مشکل ہو جائے گا۔