’’آن لائن‘‘ کی ایک خبر کے مطابق عراق و شام میں سنی مجاہدین کے گروپ نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ ’’اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ان مجاہدین نے مسلح پیشرفت کر کے عراق اور شام کی سرحد پر دونوں طرف کے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا قبضہ ختم کرانے میں عراق اور شام دونوں طرف کی حکومتوں کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی گزشتہ دنوں بغداد کا دورہ کر کے اس سلسلہ میں ایک مشاورت میں شریک ہو چکے ہیں اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی درخواست پر امریکہ ان کی امداد کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
’’اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشار الاسد دونوں کا تعلق اہلِ تشیع سے ہے اور دونوں ملکوں کی سنی آبادی کو ان کے جارحانہ اور انتقامی طرزِعمل کی شکایت ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ایک انٹرویو میں نوری المالکی کے بارے میں کہہ چکی ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب رکھتے ہیں۔ انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوج اور سول انتظامیہ سے سنی افسران کو چن چن کر نکال دیا تھا اور وہ سنی آبادی کو حکومتی معاملات میں شریک کرنے کی سوچ نہیں رکھتے۔ دوسری طرف شام کے صدر بشار الاسد کو ملک کی سنی اکثریت کے خلاف معاندانہ اقدامات اپنے والد حافظ الاسد سے ورثہ میں ملے ہیں اور وہاں یہ کشمکش گزشتہ چار عشروں سے تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔ جب حافظ الاسد نے سنی علماء اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے ان کے مضبوط مذہبی گڑھ اور تاریخی بستی ’’حماہ‘‘ کو فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن اور کریک ڈاؤن میں دس ہزار کے لگ بھگ سنی علماء اور کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اور شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ سمیت سینکڑوں سرکردہ علماء کرام جلاوطنی پر مجبور ہوگئے تھے۔
موجودہ صورتحال میں نوری المالکی اور بشار الاسد کو نہ صرف ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ لبنان کی حزب اللہ اس لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ ہے اور عالمی سطح پر روس اور چین کی واضح سپورٹ کے بعد اب امریکہ بھی انہیں بچا لینے کی حکمتِ عملی پر آگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی حلقوں میں لگاتار گردش کرنے والی اس خبر پر بھی نظر ڈال لی جائے کہ عراق کو تین حصوں (۱) شیعہ عراق (۲) کرد عراق اور (۳) سنی عراق میں تقسیم کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں سنی عراق صرف تین صوبوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا، اور یہ وہ صوبے ہیں جہاں نہ تیل ہے اور نہ ہی انہیں دوسرے وسائل میسر ہیں۔ اور اس طرح ایک عرب صحافی کے بقول عراق کے سنی (السنۃ علی باب اللہ) مستقبل میں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
اردن کے شاہ عبد اللہ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے اہلِ سنت شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں۔ اور آج یہ بات علاقے کی صورتحال میں واضح عملی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں شام اور عراق کے سنی مجاہد گروپوں نے اتحاد قائم کر کے دونوں طرف کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا جو سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اس سے یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی نقشہ کو ازسرنو تبدیل کرنے کی عالمی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی فکر میں ہیں۔
اس خطہ کی موجودہ جغرافیائی تقسیم پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کی شکست و ریخت اور اس کے بیشتر علاقوں پر یورپی ممالک کے تسلط کے بعد اس وقت وجود میں آئی تھی جب بین الاقوامی معاہدات کے تحت ترکی کو خلافت کا ٹائٹل ترک کر دینے کی صورت میں اس کی حدود میں محصور کر دیا گیا تھا، اور اس کے بہت سے صوبوں کو نئی سرحدات کے ساتھ آزاد ممالک کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ ورنہ یہ سب علاقے حتیٰ کہ اسرائیل بھی ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے صوبوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر یورپی قوتوں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے زیرنگیں علاقوں کو اس طرح تقسیم کر دینا بھی ضروری سمجھا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہیں۔
عالمی استعمار کو ایک صدی کے بعد اپنے مفادات اور تسلط کے تحفظ اور اسرائیل کی بقا کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سرحدوں کی نئے سرے سے تشکیل کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ عالمی استعمار نے مشرقِ وسطیٰ کی نئی جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام میں خلافتِ اسلامیہ کے قیام اور شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کو ہر قیمت پر روکنے کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے، جو وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سے مغرب کی فکری قیادت کے لیے مسلسل سرگرم ہیں، ایک خطاب میں کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی، اور نہ ہی شریعت نافذ ہو گی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ترکی نے ’’معاہدہ لوزان‘‘ میں جب خلافت و شریعت سے دستبرداری اختیار کی تھی اور آئندہ کبھی خلافت و شریعت کو اپنی حدود میں دوبارہ واپس نہ لانے کا یورپی قوتوں سے وعدہ کیا تھا تو اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ترک لیڈر مصطفی کمال اتاترک اور عصمت انونو اس کانفرنس میں خلیفہ عثمانی کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اسی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ اس پر بعض مغربی دانشوروں کا کہنا ہے کہ خلافت و شریعت سے مکمل اور مستقل دستبرداری کا یہ معاہدہ عثمانی خلافت کے نمائندے نے کیا تھا جو پورے عالمِ اسلام کی طرف سے تھا۔ اس لیے پوری مسلم امہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ خلافت و شریعت سے دستبرداری پر ہمیشہ قائم رہے۔ جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام میں خلافت کے احیا کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک میں بیسیوں تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض نے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کر رکھا ہے، ان کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ بھی خلافتِ اسلامیہ کے احیا و قیام کے لیے مصروف عمل ہیں اور عالمِ اسلام کی ایک اجتماعی دینی و ملی ضرورت کی تکمیل چاہتے ہیں۔
خلافتِ اسلامیہ امتِ مسلمہ کی دینی ضرورت تو ہے ہی، ملی اور عالمی ضرورت بھی ہے کہ عالم اسلام اس وقت زخموں سے چور ہے مگر عالمی سطح پر اس کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ جبکہ امتِ مسلمہ پوری کی پوری عالمی استعماری قوتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کا اندازہ ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے ایک انٹرویو میں عالمِ اسلام کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی حسرت کے ساتھ یہ جملہ کہا تھا کہ ’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافتِ عثمانیہ) بھی نہیں ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی آواز اٹھا سکے‘‘۔ اس ساری صورتحال میں سنی ممالک کی حکومتوں کا رویہ کیا ہے اور سنی دنیا کی علمی و فکری قیادتیں کس مزے سے خواب خرگوش میں مست ہیں، اس پر یہ شعر ان کی نذر کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ:
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری