پارلیمنٹ کا فیصلہ اور قادیانیوں کے عزائم

   
تاریخ : 
۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء

قادیانیت کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کو ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک نہ تو اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری اقدامات کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی قادیانی گروہ نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرزا ناصر احمد نے گزشتہ دنوں ربوہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آئین میں واضح ممانعت کے باوجود اپنے دادا کی نبوت کا پرچار جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ’’خدا کی بشارتوں‘‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ میں جنوری تک اس فیصلہ کے بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کروں گا۔

اس کے ساتھ ہی ملک میں قادیانیوں کی جارحانہ سرگرمیاں پہلے سے تیز ہوگئی ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ۳ اکتوبر کو کنری سندھ میں قادیانیوں نے مسلمانوں پر مسلح حملہ کر کے ۱۶ مسلمانوں کو زخمی کر دیا۔ اسی طرح سرگودھا میں مجلس عمل کے جنرل سیکرٹری راؤ عبد المنان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ضلع گوجرانوالہ کے مقامات ماچھی دولو والی اور تتلے عالی میں قادیانیوں کی اشتعال انگیز حرکات کے علاوہ وزیرآباد میں مولانا محمد رمضان مرحوم کے جنازہ کے موقع پر ایک قادیانی کے ہاتھ میں دستی بم کا پھٹنا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ قادیانی گروہ اور اس کے ہمنواؤں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے مابین اختلافات کو ہوا دے کر ملی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کا بھی پروگرام بنایا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تین لاکھ روپے مخصوص کر دیے ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ قادیانی گروہ نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کو قبول کرنے کی بجائے اسے غیر مؤثر بنانے کا تہیہ کر لیا ہے اور انہیں جنوری تک حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا ہونے کی توقع ہو چکی ہے۔ اور شاید اسی توقع کو یقین کے درجہ تک پہنچانے کے لیے انہوں نے ملک میں افراتفری اور فرقہ وارانہ فسادات بپا کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

اس لیے ہم حکومت پاکستان اور مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس صورتحال کا گہری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیں۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کر دینا چاہیے اور قادیانیوں کو جارحیت سے باز رکھنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ فوری اقدام کے طور پر ان کی تمام نیم فوجی تنظیموں فرقان فورس اور خدام الاحمدیہ وغیرہ کو خلاف قانون قرار دے کر ان کا اسلحہ ضبط کیا جائے اور اس کے ساتھ آئین میں ترمیم کے عملی تقاضوں کو جلد از جلد پورا کیا جائے۔

مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کے ارباب حل و عقد سے گزارش ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی برقرار رکھنے کا اہتمام کریں، ابھی انہوں نے بہت سے کام کرنے ہیں۔ قادیانیت کے بارے میں پارلیمنٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کی نگرانی کے بعد بھی اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام اور اصلاح معاشرہ کی منزل ابھی بہت آگے ہے۔ اور یہ منزل اسی اتحاد، رواداری اور معاونت کے جذبہ سے کام لے کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے جس کے تحت قادیانیت کا مسئلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے۔ مجلس عمل کے راہنماؤں کو ان افراد کی سرگرمیوں پر کڑی توجہ رکھنی چاہیے جو اس موقعہ پر باہمی اختلافات کو ہوا دے کر پارلیمنٹ کے فیصلہ کو غیر مؤثر بنانے کے قادیانی پروگرام کو تقویت پہنچانا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ملت فروش عناصر کو غائب و غاصر فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter