حق سے انکار اور مظلوم کی بدعا ، قدرتی آفات کا ایک سبب

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۲ اگست ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم آج کل بارشوں کی کثرت اور بادلوں کے پھٹنے کے بعد سیلابی صورتحال سے دوچار ہیں اور قوم کے بہت سے طبقات و افراد بالخصوص دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ اپنے متاثرہ بھائیوں اور خاندانوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ یہ قدرتی آفات کہلاتی ہیں جو اچانک غیبی ماحول سے سامنے آتی ہیں اور انسانی وسائل اور صلاحیتیں اکثر اوقات ان کا سامنا کرنے اور رکاوٹ ڈالنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ سیلاب، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں ظاہر ہونے والی ان قدرتی آفات کے پیچھے اصل تو اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت ہوتی ہے کہ وہ خالقِ ارض و سماء ہے، تمام تر ظاہری و مخفی قوتیں اسی کے کنٹرول میں ہیں اور اسی کے حکم سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ جس کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے، اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کا کوئی کام، فیصلہ اور عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ البتہ ان آفات کے اسباب کے بارے میں بحث و تمحیص ہوتی رہتی ہے اور اربابِ علم و حکمت ان پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ آج ان میں سے ایک سبب کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کا تذکرہ قرآن کریم اور احادیث میں متعدد حوالوں سے موجود ہے۔

مثلاً‌ یہی سیلاب ہے کہ بارش اگر ضرورت کے مطابق نہ برس رہی ہو تو اسے قحط سالی کہتے ہیں جو آسمانی آفت کی ہی ایک صورت ہے، اور اگر ضرورت سے زیادہ برس جائے تو اس کی سیلابی کیفیت سے ہونے والی تباہ کاریاں بھی آسمانی آفت ہی کہلاتی ہیں۔ زمین پر آنے والا سب سے بڑا سیلاب طوفانِ نوح کہلاتا ہے جس کا تذکرہ تاریخ کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث میں بھی کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق بادلوں نے بھی پانی برسایا اور زمین کے چشمے بھی پانی ابلنے لگے جس سے ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔ حتیٰ کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ تاریخی کشتی بنائی جس پر سوار ہو کر اس وقت زمین پر موجود انسانی آبادی کا ایک حصہ محفوظ رہا اور باقی سب غرق ہو گئے۔

اس سیلاب کے دیگر اسباب بھی ہوں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور حکمت اس کی اصل علت ہے۔ مگر اس کے پیچھے قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی وہ بددعا بھی تھی جو انہوں نے کم و بیش ایک ہزار برس تک قوم کو توحید کی دعوت دینے پر اور قوم کے طعنے اور تند و تلخ منفی رویے کو برداشت کرنے کے بعد ان الفاظ میں فرمائی تھی کہ ’’رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا‘‘ (نوح ۲۶) یا اللہ ان کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر زندہ اور آباد نہ رہنے دے۔

قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت نوح علیہ السلام سے یہ فرمایا کہ اب کوئی اور شخص آپ کی قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا تو انہوں نے بددعا فرمائی کہ پھر ان سب کو تباہ و برباد کر دے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم طوفان بھیجا جو آج تک تاریخ میں ضرب المثل ہے۔ یعنی اس طوفانی سیلاب کے پیچھے دیگر حکمتوں اور اسباب کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام کی وہ بددعا بھی کارفرما تھی جو انہوں نے قوم کے حق کو قبول کرنے سے کھلے انکار اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور بندوں کو مسلسل تنگ کرنے کی وجہ سے کی تھی۔

اس کی ایک مثال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں بھی سامنے آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قریشِ مکہ کے مسلسل مظالم اور حق کو قبول کرنے سے انکار کے بعد مکہ مکرمہ میں قحط سالی کا ماحول ہو گیا، بارش رک گئی، کھیت خشک ہو گئے، پیداوار رک گئی اور لوگ بھوکے مرنے لگے۔ حتیٰ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بقول بھوک کی شدت کے باعث آنکھوں کے سامنے اندھیرا نظر آنے لگا۔ جسے قرآن کریم نے ’’دخان مبین‘‘ (الدخان ۱۰) سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کے پیچھے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا تھی کہ یا اللہ ان منکرین، معاندین اور ظالموں پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور کی طرح قحط سالی مسلط فرما، جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور پورا علاقہ خشک سالی کا شکار ہو گیا۔ حتیٰ کہ قریش کے سردار جناب ابو سفیانؓ نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ’’صلہ رحمی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دوبارہ دعا کرنے کی گزارش کی۔

اس لیے ان قدرتی آفات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ان کے پیچھے ہمارے مظالم اور کوتاہیوں کے دائرے میں شریعت کے احکام سے ہمارا مسلسل گریز اور طبقاتی یا گروہی مظالم تو کارفرما نہیں ہیں کہ کسی مظلوم فرد، طبقہ یا گروہ کی بددعا نے عرشِ الٰہی کا دروازہ کھٹکا دیا ہو اور ہم ان قدرتی آفات کا شکار ہو رہے ہوں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو احساس، توبہ اور اصلاح کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter