تبلیغی جماعت کی دعوت کا بنیادی مقصد

   
۲۹ نومبر ۲۰۱۰ء

تبلیغی جماعت کی برکت سے اس ہفتے مسلسل تین دن فیصل آباد میں رہنے کا موقع مل گیا۔ میرا ایک طرح سے معمول ہے کہ عید الاضحیٰ کی تعطیلات میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سالانہ سہ روزہ لگاتا ہوں، جس کا مقصد ایک کارِ خیر میں کسی بھی درجے کی شرکت اور اس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے علاوہ چند دن عام روٹین سے ہٹ کر گزارنا بھی ہوتا ہے، اور سنن و مستحبات کے بہت سے اعمال جو عام دنوں میں رہ جاتے ہیں، دو تین دن میں وہ بھی کرنے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔

ایک معروف دانش ور سے تبلیغی جماعت کے کام اور اس کی افادیت و ضرورت پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بڑے پتے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں ماہرینِ نفسیات کا معاشرے میں اہم رول ہوتا ہے، جو عام لوگوں کی نفسیاتی رہنمائی کرتے ہیں اور نفسیاتی الجھنوں اور مشکلات میں ان کا علاج کرتے ہیں، جبکہ مسلم معاشروں اور ممالک میں یہ منظر کم دیکھنے میں آتا ہے اور ماہرین نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت بہت ہی کم لوگوں کو پیش آتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام مسلمانوں کو مساجد اور خانقاہوں کی صورت میں ایسے مراکز جابجا میسر ہیں، جہاں وہ روز مرہ معمولات اور روٹین ورک سے ہٹ کر کچھ وقت گزار لیتے ہیں، جس سے ان کی توجہ بٹ جاتی ہے، تھکاوٹ اور معمولات کی یکسانیت سے ان کے مزاج میں جو اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے، اس کا علاج ہو جاتا ہے اور وہ پھر سے تازہ دم ہو کر اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ سہولت مغرب والوں کو میسر نہیں ہے، کیونکہ ان کے جن مذہبی مراکز کے ذریعے انہیں یہ سہولت مہیا ہو سکتی ہے، وہ سوسائٹی میں اپنا کردار اور افادیت کھو چکے ہیں۔

اسباب کے درجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور معاملات کو صرف ظاہری اسباب کے حوالے سے دیکھنے والوں کے لیے بھی مسجد اور خانقاہ کا یہ ماحول اور اس میں کچھ وقت گزارنا افادیت سے خالی نہیں ہے۔

تبلیغی جماعت کو میں ایک عالمی موبائیل خانقاہ کہا کرتا ہوں، جو عام مسلمانوں کو یہ موقع مہیا کرتی ہے کہ وہ عام معمولات اور روٹین سے ہٹ کر کچھ دن اس سے مختلف ماحول میں گزار لیں۔ نماز، روزے کی پابندی کے علاوہ کچھ دینی مسائل کی تعلیم، نوافل و مستحبات کے چند اعمال اور بزرگانِ دین کے واقعات و تجربات سے آگاہی کا موقع مل جاتا ہے اور ذہنی و قلبی طور پر کچھ ریفریشمنٹ ہو جاتی ہے، مگر علمائے کرام کے لیے اس عمل میں وقتاً فوقتاً شرکت کے دو تین فائدے میں اور بھی گنوایا کرتا ہوں

  1. ایک یہ کہ وہ اپنے مخصوص اور بند ماحول سے قدرے کھلے ماحول میں آ جاتے ہیں، جس سے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور لگے بندھے متعین دائرے سے ہٹ کر دین کا کام کرنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔
  2. دوسرا یہ کہ ڈسپلن اور وقت کی پابندی کی عادت بنتی ہے، اور
  3. تیسرا یہ کہ مختلف طبقات اور متنوع مزاج لوگوں کے ساتھ بار بار ملاقاتوں سے پبلک ڈیلنگ کی ضرورت اور تقاضے سمجھ میں آتے ہیں۔

جبکہ تبلیغی جماعت کا اصل کام تو اپنی جگہ اہم ہے کہ عام مسلمان کو مسجد کے ساتھ جوڑا جائے، اسے دین کی بنیادی باتوں سے آگاہ کیا جائے اور دینی اعمال کی پابندی کے لیے تیار کیا جائے، جو ہر مسلمان کے لیے بہرحال ضروری ہے۔

اس پس منظر میں زیادہ تو نہیں، مگر سال میں ایک سہ روزہ پابندی کے ساتھ لگاتا ہوں، جو عید الاضحیٰ کی تعطیلات میں ہوتا ہے۔ اس سال تبلیغی مرکز والوں نے اس سہ روزہ کی تشکیل فیصل آباد میں کر دی اور ہماری جماعت نے، جو پچیس کے لگ بھگ علمائے کرام پر مشتمل تھی، یہ تین دن رفیق کالونی، فیصل آباد کی زکریا مسجد میں گزارے۔

میں نے اس دوران ایک اور بات کا لطف بھی محسوس کیا کہ عام دنوں میں ہمارا ماحول کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ مختلف امور اور مسائل میں لوگ ہمیں حَکم کا درجہ دے دیتے ہیں اور یہ کہہ کر بات ہمارے ذمہ ڈال دیتے ہیں کہ جیسے استاد صاحب کہہ دیں گے وہی ہم کر لیں گے، مگر ان تین دنوں میں صورت حال الٹ ہو جاتی ہے۔ مجھ سے کوئی صاحب کسی معاملے میں بات کرتے ہیں تو یہ کہہ کر مجھے عجیب قسم کا روحانی سکون محسوس ہوتا ہے کہ امیر صاحب سے پوچھ لیں۔ اس بار ہمارے امیر پیپلز کالونی گوجرانوالہ کی مسجد صدیق اکبرؓ کے خطیب مولانا محمد ندیم تھے۔ انہی دنوں فیصل آباد میں ہمارے ایک دوست کی بھتیجی کا نکاح تھا، انہوں نے کہا کہ آپ اتفاق سے آئے ہوئے ہیں، بچی کا نکاح پڑھا دیں۔ میں نے کہا کہ امیر صاحب سے بات کرو، وہ اجازت دیں گے تو پڑھا دوں گا۔ اجازت مل گئی اور میں اس شادی میں شریک ہوا۔

میں اس حوالے سے بھی علمائے کرام کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے ماحول میں اتھارٹی کے طور پر تو ہر وقت مصروف رہتے ہیں، کبھی کسی دوسرے ماحول میں مامور اور ماتحت کے طور پر بھی وقت گزار لیا کریں، تاکہ وہ امیر اور مامور کے تعلق میں دونوں طرف کے جذبات و احساسات سے عملاً آگاہ ہو سکیں۔

ہمارے یہ تین دن خاصے مصروف گزرے اور میں نے اس موقع سے ایک فائدہ بھی اٹھایا کہ فیصل آباد کے سرکردہ علمائے کرام سے ملاقاتوں کا موقع نکال لیا اور متعدد دینی مدارس میں حاضری ہو گئی۔ تبلیغی جماعت کے معمولات میں ایک ”خواص سے ملاقات“ کا عمل بھی ہوتا ہے، جس میں مختلف طبقات کی سرکردہ شخصیات سے مل کر انہیں دعوت دینا ہوتی ہے۔ چند سال قبل ہمارے اسی سہ روزے کی تشکیل لاہور میں ماڈل ٹاؤن کی لنک روڈ کی مسجد شیخہ سالم میں ہوئی تو خواص کے گشت میں ہم محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، مفتی غلام سرور قادری مرحوم، جناب جاوید احمد غامدی اور دیگر اہم شخصیات کے پاس گئے اور انہیں اس کارِ خیر کے ساتھ تعاون اور سرپرستی کی دعوت دی۔ اس سال میں نے خواص کے گشت میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام کے نام لکھوائے، جن میں سرفہرست صاحبزادہ حاجی فضل کریم تھے، مگر وہ کراچی گئے ہوئے تھے، اس لیے ان کے پاس تبلیغی جماعت کا وفد لے جانے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ البتہ مولانا مجاہد الحسینی، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا محمد یوسف انور، مولانا مفتی محمد ضیاء، مولانا زاہد محمود قاسمی، مولانا سید نذیر احمد شاہ، مولانا قاری محمد وقاص، ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر قاری محمد طاہر، حافظ ریاض احمد قادری اور دوسرے بزرگوں سے ملاقاتوں کے علاوہ حضرت صوفی برکت علی لدھیانویؒ کی خانقاہ میں حاضری ہوئی۔ فیصل آباد کی تاجر برادری کے رہنما خواجہ شاہد رزاق سِکا اور دیگر حضرات سے بھی بات چیت ہوئی اور سب سے بڑھ کر جامعہ خیر المدارس ملتان کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد صدیق مدظلہ کی خدمت میں حاضری دے کر دعائیں حاصل کرنے کا شرف ملا، جو فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ مدارس میں سے دارالعلوم فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ امدادیہ، جامعہ مدينۃ العلم، جامعہ سعدیہ، جامعہ فاروق اعظمؓ، جامعہ عبد اللہ بن عباسؓ اور جامعہ قاسمیہ میں حاضری ہو سکی۔

اس دوران زکریا مسجد میں معمول کی نشستوں میں سے ایک دو میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع بھی ملا، جن میں بنیادی طور پر یہ بات میں نے عرض کی کہ ہم جب بھی کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو تین سوال عام طور پر خودبخود ذہن میں آ جاتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ یہ چیز کیا ہے؟
  2. دوسرا یہ کہ اس کا مقصد کیا ہے؟
  3. اور تیسرا یہ کہ اسے کس نے بنایا ہے؟

کیونکہ کوئی چیز بھی کسی کے بنائے بغیر نہیں بنتی، ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد اور فنکشن ہوتا ہے اور ہر چیز کی کوئی نہ کوئی ماہیت اور ترکیب ہوتی ہے۔ اس بات کو سامنے رکھ کر اگر ہم خود اپنے بارے میں ان تینوں سوالوں کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان کیا چیز ہیں؟ ہمیں کس نے بنایا ہے؟ اور کس مقصد اور کام کے لیے بنایا ہے؟ تو جو علوم و فنون ہمیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں، وہ صرف ایک سوال سے بحث کرتے ہیں کہ ہم کیا ہیں؟ مثلاً میڈیکل سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے جسم کا میٹریل کیا ہے؟ نیٹ ورک کیا ہے؟ اور میکنزم کیا ہے؟ اس سوال کے بارے میں سائنس اور دیگر علوم ہمیں تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں۔ لیکن دوسرے دو سوالوں کو وہ سرے سے ٹچ ہی نہیں کرتے کہ ہمیں کس نے بنایا ہے؟ اور کس مقصد اور کام کے لیے بنایا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر میں ماچس کی ایک تیلی کے بارے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اسے کس نے بنایا ہے اور کس کام کے لیے بنایا ہے؟ تو خود اپنے بارے میں بھی مجھے یہ ضرور جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مجھے کس نے بنایا ہے؟ اور میرا مقصدِ وجود کیا ہے؟ جبکہ ان دو سوالوں کا جواب مجھے سائنس اور دیگر جدید علوم سے نہیں ملتا، بلکہ وہ سرے سے ان سوالوں پر بحث ہی نہیں کرتے۔ ان دونوں سوالوں کا جواب مجھے صرف وحی الٰہی سے ملتا ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے ملتا ہے۔ اس لیے اپنے بارے میں یہ جاننے کے لیے مجھے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف رجوع کرنا ہو گا اور میرے خیال میں تبلیغی جماعت کی بنیادی دعوت بھی یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter