روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ دسمبر ۲۰۰۹ء میں شائع شدہ خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے بینکوں سے حاصل کی گئی رقوم کی معافی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ ۱۹۷۱ء سے اب تک بینکوں سے معاف کرائے جانے والے قرضوں کی فہرست پیش کرے اور ان کی واپسی کے لیے نظام کار وضع کیا جائے۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے، جس میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل ہیں، بینکوں سے قرضوں کی معافی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان قرضوں کی معافی غیر قانونی ہے، یہ قومی دولت ہے اور ہم کسی کو قومی دولت لوٹنے نہیں دیں گے۔ اس موقع پر سید اقبال حیدر نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۹ء تک ۱۹۷۱۱ افراد نے ایک سو ترانوے ارب روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں اور یہ سب لوگ وہ ہیں جنہوں نے پانچ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ رقوم کے قرضے معاف کرائے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قرضے معاف کروانے والوں کو ہم ایک بار قرضے واپس کرنے کا موقع دیں گے اور اس کے بعد احتساب کریں گے۔
این آر او (NRO) کے خاتمے کے بعد عدالت عظمیٰ کا یہ دوسرا تاریخی فیصلہ ہے جس پر چیف جسٹس اور ان کے رفقاء بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں، ہم اس موقع پر ماضی کے ایک تاریخی واقعہ کا حوالہ دینا چاہیں گے جو مولانا شاہ معین احمد ندوی ؒ نے تاریخ اسلام میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے تذکرہ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’اس سلسلہ میں سب سے مقدم فرض رعایا اور زیردستوں کے اس مال و جائیداد کی واپسی تھی جسے شاہی خاندان کے ارکان، اموی عمال اور دیگر عمائدین نے اپنی جاگیر بنا لیا تھا۔ یہ ایسا نازک کام تھا جس کو ہاتھ لگانا سارے خاندان کی مخالفت مول لینا تھا لیکن سب سے پہلے آپ نے اسی کار خیر کو شروع کیا، خود آپ کے پاس بہت بڑی موروثی جاگیر تھی، بعض خیر خواہوں نے عرض کیا کہ اگر جاگیر واپس کر دیں گے تو اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے؟ فرمایا ان کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ (سیرۃ عمر بن عبد العزیز ابن جوزی ص ۱۱۵)
اس کے بعد اہل خاندان کو جمع کر کے فرمایا کہ بنی مروان! تم کو دولت اور شرف کا بڑا حصہ ملا ہے، میرا خیال ہے کہ امت کا نصف یا دو تہائی مال تمہارے قبضے میں ہے۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ خدا کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں گے اس وقت تک یہ جائیدادیں واپس نہیں ہو سکتیں، خدا کی قسم نہ ہم اپنے آباء و اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کو مفلس بنائیں گے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا، خدا کی قسم اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم کو ذلیل اور رسوا کر کے چھوڑوں گا۔ (سیرۃ عمر بن عبد العزیز ؒ ابن جوزی ص ۲۰۸)
اس کے بعد عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرکے یہ تقریر کی کہ ان لوگوں (یعنی سابقہ اموی خلفاء) نے ہم ارکان خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطایا دیے، خدا کی قسم جن کے دینے کا نہ ان کو کوئی حق تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا، اب میں سب کو ان کے اصلی حقداروں کو واپس کرتا ہوں اور اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔ اس تقریر کے بعد جاگیروں کی اسناد کا خریطہ منگوایا، مزاحم ؒ ان اسناد کو نکال کر پڑھ پڑھ کر سناتے جاتے تھے اور عمر بن عبد العزیزؒ انہیں قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔(ابن سعد ص ۲۵۲ ج ۵)
اپنی اور اپنے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کر دی حتیٰ کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہیں رہنے دیا۔ (تاریخ الخلفاء ص ۲۲۳)
آپ کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبد الملک نے ایک بیش قیمت پتھر دیا تھا، عمر بن عبد العزیزؒ نے بیوی سے کہا کہ اسے بیت المال میں داخل کر دو یا مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ، اطاعت شعار بیوی نے اسی وقت پتھر بیت المال میں داخل کرا دیا۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر عدالت عظمیٰ NRO اور معاف کرائے جانے والے قرضوں کے بارے میں اپنے ان فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے پیشرفت میں کامیاب ہوتی ہے اور ہماری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہو تو یہ ایک تاریخی اور انقلابی کامیابی ہو گی جو ملک کی تقدیر کا رخ بدل سکتی ہے، اور اس سے نہ صرف یہ کہ کرپشن، بددیانتی اور لوٹ مار کا خاتمہ ہو گا بلکہ عام پاکستانی شہریوں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور قومی وسائل چند افراد اور طبقات کی لوٹ کھسوٹ اور عیاشی کا ذریعہ بننے کی بجائے ملک کے عام شہریوں کے کام آئیں گے۔