سوڈان میں مسیحی ریاست کا منصوبہ

   
دسمبر ۲۰۱۰ء

انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کو ریفرنڈم کے ذریعے الگ کر کے ایک عیسائی ریاست قائم کرنے کے عمل کو ابھی چند سال ہی گزرے ہیں کہ سوڈان میں دارفور کے جنوبی علاقہ کو سوڈان سے الگ کر کے ایک الگ مسیحی ریاست کی شکل دینے کے منصوبہ پر کام آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ سوڈان رقبہ کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی چار کروڑ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے اور مسلمانوں کا تناسب ۷۵ فیصد بتایا جاتا ہے۔

جنوبی سوڈان میں بت پرست قبائل کی اکثریت تھی جسے اپنے ساتھ ملانے کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مقابلہ کا میدان گزشتہ نصف صدی سے گرم رہا ہے مگر عالمی طاقتوں کی مسلسل پشت پناہی کے باعث مسیحی مشنریاں یہ مقابلہ جیتتی نظر آرہی ہیں اور تیل کی دولت سے مالامال سوڈان کے اس خطہ میں جنوری کے دوران ریفرنڈم کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ بظاہر مشرقی تیمور سے مختلف نہیں ہو گا اور اس طرح اقوام متحدہ کی زیرنگرانی عالمی طاقتوں کے دباؤ پر منعقد ہونے والے اس ریفرنڈم کے بعد جنوبی سوڈان ایک الگ ملک کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ جو کہ اپنے تشخص کے حوالہ سے ایک مسیحی ملک ہو گا اور مغربی ممالک نہ صرف اس علاقہ کے تیل پر تسلط جما لیں گے بلکہ اس کے ذریعے ایتھوپیا، اریٹیریا، صومالیہ، یوگنڈا، روانڈا اور کانگو میں دریافت ہونے والے معدنی ذخائر پر بھی انہیں براہ راست دسترس حاصل ہو جائے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۷ء میں ’’سوڈان چرچ کونسل‘‘ کی تجویز پر ’’آل افریقہ چرچ کونسل ‘‘ نے سوڈان کے جنوبی علاقہ کو دعوتی سر گرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور بت پرست قبائل کو مسیحیت کے دائرے میں لانے کے ساتھ ساتھ سوڈان میں نفاذ شریعت کے اقدامات میں رکاوٹ ڈالنے اور اسلامی قوتوں کو قومی سیاست میں کمزور کرنے کے ایجنڈے پر کام شروع ہوا تھا۔ اس دوران مسلمانوں اور مقامی قبائل کے درمیان خانہ جنگی کا میدان ہموار کیا گیا اور ایک رپورٹ کے مطابق ۲۲ سالہ خانہ جنگی میں پندرہ لاکھ سے زیادہ افراد موت کی گھاٹ اتر گئے۔ عالمی قوتوں اور خاص طور پر امریکہ کی سرپرستی و معاونت سے جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی اور ابتری کو اس حد تک بڑھایا گیا کہ سوڈان کے صدر جنرل عمر بشیر نے جنوری ۲۰۱۱ء کے دوران جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کرانے کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہو گا اس کے بارے میں کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔

مسلم ممالک میں مسیحی مشنریاں کیا کام کر رہی ہیں اور ان کے اہداف کا دائرہ کار کس قدر متنوع اور وسیع ہے؟ انڈونیشیا اور سوڈان کے ان تجربات کے پیش نظر ان کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس قسم کی صورتحال پر نظر رکھنے، خطرات و خدشات کی نشاندہی کرنے اور ایسی سرگرمیوں کا راستہ روکنے کے لیے کسی سنجیدہ منصوبہ بندی کا کوئی کام بلکہ ذوق تک موجود نہیں ہے۔ حکومتی حلقوں یا باری باری اقتدار میں آنے والے طبقات سے تو اس فکر کی توقع ہی عبث ہے کہ ہمارے حکمران طبقات اپنا کوئی ایجنڈا رکھنے کی بجائے ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کا حصہ چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی ان کے اس دائرہ سے نکلنے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مگر ہماری دینی جماعتوں اور علمی مراکز کو بھی ایسے لگتا ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہے اور اکادکا افراد اور اداروں کی صدا بھی اس نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہو رہی ہے۔

اب سے پندرہ بیس سال قبل سامنے آنے والی بعض عالمی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے حوالہ سے بھی اس قسم کا منصوبہ موجود ہے جس میں خانیوال سے سیالکوٹ تک الگ مسیحی ریاست کے قیام اور گوجرانوالہ کو دارالحکومت بنانے کی تجویز بھی بعض رپورٹوں کا حصہ ہے۔ بظاہر یہ بات دیوانے کا خواب نظر آتی ہے لیکن انڈونیشیا اور سوڈان کے تجربات اور پاکستان میں مسیحی مشنریوں اور بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کی سر گرمیوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو دیوانے کا خواب دکھائی دینے والے اس منصوبے کی تفصیلات اور مسلسل خفیہ پیشرفت اچھے خاصے دانشمندوں کو دیوانہ بنا دینے کے لیے کافی ہو گی۔

ملک کی دینی جماعتوں اور علمی مراکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا گہرے غور و فکر کے ساتھ جائزہ لیں اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خدشات و خطرات کا اندازہ کرتے ہوئے اس دائرے میں اپنی ذمہ داریوں اور ترجیحات کا از سر نو تعین کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter