اسلامی معاشرے کی تشکیل میں عورت کا کردار

   
الکتاب فاؤنڈیشن اکیڈمی
۲۰۱۷ء
(’’الکتاب فاؤنڈیشن اکیڈمی‘‘ کے زیر اہتمام ۲۰۱۷ء کے دوران سیرت کانفرنس سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ باتیں اتنی خوبصورت اور اتنی جامع ہوئی ہیں کہ اس کے بعد کسی نئی بات کے اضافے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور گھڑی بھی اجازت نہیں دے رہی۔ لیکن صرف اپنے موضوع پر ایک بات کہتے ہوئے؛ مجھے موضوع دیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل میں عورت کا کردار کیا ہے؟ یہ تو سب سے اہم موضوع ہے اور سب سے لمبا موضوع ہے۔ عورت بات چھیڑ دے تو وہ مختصر نہیں ہوتی، اور عورت کی بات چھڑ جائے تو وہ مختصر نہیں ہوتی۔ عورت خود بھی مختصر بات نہیں کرتی، اور عورت کی بات کی جائے تو وہ بھی مختصر نہیں ہوتی۔ لیکن مجھے بہرحال ایک بات کہنی ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل میں عورت کا رول کیا ہے؟ اگر اس سے پہلے ہم یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ تو رول تو حیثیت کے بعد طے ہوتا ہے کہ اس کا مقام کیا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے، اس کا سٹیٹس کیا ہے؟ تو پھر اگلی بات ہو گی کہ اس کا رول کیا ہے؟ بہت دلچسپ موضوع ہے، بڑا لمبا موضوع ہے، پھر کسی موقع پہ چھوڑتے ہوئے ایک واقعہ عرض کر کے اجازت چاہوں گا۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، کوئی پانچ دس سال پہلے کی بات، واشنگٹن میں میں جاتا رہا ہوں تو وہاں ہمارے ایک دوست ہیں مولانا عبد الحمید اصغر، بہاولپور کے ہیں، وہ ایک مسجد اور ادارے میں ہیں۔ ان کے ہاں میں بیٹھا ہوا ناشتے میں۔ میں انگریزی نہیں جانتا ’’اَن پڑھ‘‘ آدمی ہوں۔ وہاں بیٹھے ہوئے۔ تو واشنگٹن ٹائمز وہاں کا مشہور اخبار ہے دنیا کے بڑے اخباروں میں ہے۔ وہ آیا تو مولانا اب مجھے خبریں سنا رہے ہیں، اور ایک جگہ چونک گئے۔ انہوں نے کہا کہ یار آج تو بڑا زبردست فیچر ہے واشنگٹن ٹائمز میں، برصغیر کے دینی مدارس کے حوالے سے بڑا دلچسپ فیچر ہے ایک پورے صفحے کا۔ اچھا! میں نے کہا، کیا ہے؟ انہوں نے کہا، بہت اچھے عنوانات ہیں۔ میں نے کہا، نہیں، اس کو تھوڑا سا سنائیں مجھے، کیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ واشنگٹن ٹائمز برصغیر کے دینی مدارس کے بارے میں اتنا اچھا فیچر دے۔ کوئی بات ہو گی۔ انہوں نے کہا، نہیں، بہت اچھا لکھا ہوا ہے۔

ایک واقعہ رپورٹ کیا تھا واشنگٹن ٹائمز نے کہ ہندوستان میں حیدرآباد دکن میں ایک جامعہ ہے، بڑا دینی ادارہ ہے، دارالعلوم حیدرآباد کے نام سے ہے غالباً‌، تو وہاں کے مفتی صاحب کا ذکر کیا تھا کہ انہوں نے وہاں کی اپنی کچھ فاضلات کو افتاء کا کورس کروا کے مفتیہ بنایا اور ان کو ایک چینل دے دیا کہ تم نے یہاں سے فتوے دینے ہیں۔ اور اعلان کر دیا کہ عورتوں کو اگر مسئلہ پوچھنا ہو تو اس نمبر پر ان عورتوں سے، یہ مفتیات ہیں۔ خود نگرانی فرما رہے ہیں۔

واقعہ یہ رپورٹ کیا کہ حیدرآباد دکن کے ایک دارالعلوم کے بڑے مفتی صاحب نے چینل بنایا ہے، نیٹ کا، اس پر مفتیات کا پینل ہے، خود نگرانی کرتے ہیں، اور شام کا کوئی وقت مقرر ہے پانچ سے سات تک، عورتیں اگر مسئلہ پوچھنا چاہیں تو اس سے مسئلہ پوچھ سکتی ہیں۔ تو یہ بڑے اچھے انداز میں رپورٹ کی۔ میں نے کہا نہیں کچھ بات ہو گی۔ آخری جملے مجھے بتائیں کیا ہیں۔ تو اس میں یہ جملہ لکھا اس نے۔ یہی ہوتا ہے۔ ان کی تکنیک یہی ہے۔ چھوٹا موٹا صحافی میں بھی ہوں کہ بات کیسے کی جاتی ہے۔ تو آخری جملہ یہ تھا، یہ پورا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ رپورٹ کر کے، کہ

’’اب مسلمان عورت کے معاملے میں اپنے طرزِ عمل سے ہٹ کر مغرب کا طرزِ عمل قبول کرتے جا رہے ہیں۔‘‘

یہ ساری بات کا خلاصہ تھا کہ عورت کے حوالے سے مسلمان اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں اور اپنی روایت کو چھوڑ دیا ہے اور اب مغرب کی روایت اور مغرب کے فکر کو یہ قبول کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے یہ مفتیات کا کورس بنایا ہے، یہ کیا ہے، وہ کیا ہے۔ اس پر نتیجہ، خلاصہ یہ تھا۔

میں نے کہا مولانا، یہ بات کہنے کے لیے ساری رپورٹ اس نے، پورے صفحے کی رپورٹ، یہ جملہ کہنے کے لیے کہ مسلمان عورت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں اور مغرب کی بات کو انہوں نے قبول کر لیا ہے۔

خیر واشنگٹن ٹائمز تک ہماری رسائی کہاں، چھوٹے موٹے اردو اخبارات میں لکھتے۔ اس پر میں نے ایک تبصرہ لکھا۔ میں نے کہا:

’’اس نے غلط کہا ہے، مسلمان عورت کے بارے میں یہ رویہ اختیار کر کے اپنے موقف سے ہٹے نہیں، اپنے موقف کی طرف واپس گئے ہیں۔‘‘

ہم اپنے موقف سے منحرف نہیں ہوئے، ہم اپنے موقف کی طرف واپس گئے ہیں۔ اس پر میں نے ایک واقعہ لکھا۔ میں نے کہا کہ قرنِ اول میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں حافظ ابن القیمؒ نے یہ لکھا ہے کہ فتویٰ دینے والی عورتیں کتنی تھیں۔

سب سے بڑی مفتیہ عظمیٰ تو حضرت عائشہ تھیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ان کے بارے میں ابو موسیٰ اشعریؓ تو اور وسیع دائرے میں بات کرتے ہیں، لیکن وہ مفتیہ عظمیٰ تھیں اور فتویٰ دیتی تھیں، فتوے کا جواب دیتی تھیں، فتویٰ رد کرتی تھیں، جواب میں فتویٰ دیتی تھیں، ان کا فتویٰ چلتا تھا۔ اور سات بڑے مفتیان میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ امت کے سات بڑے مفتیان میں حضرت عائشہؓ کا شمار ہوتا ہے۔

اور سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سیرتِ عائشہؓ‘‘ کے آخر میں سیوطیؒ کا رسالہ نقل کیا ہے ’’الاصابۃ فی استدراك عائشۃ علی الصحابۃ‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصر مفتیوں کے جن فتووں سے اختلاف کیا اور جواب میں فتویٰ دیا کہ میرا فتویٰ یہ ہے، اور چلے۔

حافظ ابن القیمؒ نے لکھا ہے کہ صحابہؓ کے دور میں فتویٰ دینے والی خواتین کی تعداد تئیس ہے۔ ان میں سب سے بڑی مفتیہ عظمیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ یہ تو فتویٰ کے حوالے سے ہے، لیکن حضرت ابو موسیٰ اشعری تو اور وسیع دائرے میں بات کرتے ہیں۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہؓ کے معاصرین میں سے ہیں اور مفتی تھے، فقیہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ

’’ما اشکل علینا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدث قط فسألنا عائشۃ الا وجدنا عندہا منہ علما‘‘

کہ ہم صحابہ کرامؓ کو کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس کا حل نہ ملا ہو ہمیں۔ اس سوسائٹی کی راہنما تھیں وہ … میں مقام کی بات کر رہا ہوں کہ عورت کا سوسائٹی میں راہنمائی کا مقام کیا ہے۔ وہ راہنما ہے، وہ معلمہ ہے۔

اور ایک جملہ ان کے بھانجے کا اور شاگرد کا ذکر کر کے میں بات ختم کروں گا۔ یہ تو معاصر کہہ رہا ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور بھانجا بھی بیٹا ہی ہے، جانشین ہے علمی جانشینوں میں، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دور میں قرآن پاک کی تفسیر، حدیث، اس کے ساتھ تاریخ اور ادب و شعر اور خطابت اور طب، ان علوم میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔

تو میں پہلے نکتہ پہ ہی رک گیا ہوں کہ عورت کا معاشرتی سٹیٹس کیا ہے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے گھر کی حاکمہ کہا ہے۔ اگر ’’راعی‘‘ کا معنیٰ حاکم ہے تو ’’والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‘‘ گھر کے باہر کا اوپر کا حکمران مرد ہے، اندر کی حکمران عورت ہے۔ اور اندر کی حکمران ہوتی بھی عورت ہی ہے۔ واقعتاً‌ بھی یہی ہے۔ ’’والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‘‘۔ یہ معلمہ ہے، یہ راہنما ہے، یہ رہنمائی کرنے والی ہے، استاذ ہے۔

اور ایک بات شامل کروں گا کہ دیکھیں، علم ہم تک منتقل ہوا ہے۔ قرآن پاک کی تفسیر میں، میں نہیں سمجھتا کہ صحابہ کرامؓ میں جو مفسرین اور مفسرات ہیں، امت نے کوئی فرق کیا ہو کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تفسیر کا درجہ زیادہ ہے اور حضرت عائشہؓ نے جو تفسیر کی اس کا درجہ کم ہے۔ اور محدثات میں، حدیث کی روایت میں، کبھی اس بات پہ بحث ہوئی ہو کہ یہ روایت چونکہ عورت سے ہے اس کا درجہ کم ہے، اور یہ مرد کی روایت ہے اس کا گریڈ زیادہ ہے۔ بلکہ اگر کہیں ترجیح ہے، چار دیواری کے اندر کی روایت ہے تو عورت کی روایت کو ترجیح ہوتی ہے۔

یہ مختلف پہلوؤں پر میں نے بات کی ہے کہ حضرت عائشہؓ ہماری آئیڈیل ہیں۔ صحابیات، یہ ہمارا بنیادی عورت کا کردار ہے۔ اس کا مقام یہ ہے، عورت کا کردار یہ ہے۔ وہ معلمہ بھی ہے، ماں تو ہے ہی، رہنما بھی ہے اور سوسائٹی کی قیادت بھی کرتی ہے۔ اپنے تمام تر احکام اور واجبات کے ساتھ امت کی رہنمائی کرنا جس طرح مرد کا کام ہے عورت کا کام بھی ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter