مسلمانوں کے دینی نصاب تعلیم کا مسئلہ آج سے نہیں صدیوں سے مغربی اقوام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ایک تاریخی روایت ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم گلیڈ اسٹون نے آج سے کوئی سو برس قبل برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر قرآن کریم کا نسخہ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک یہ کتاب مسلمانوں میں پڑھی جاتی رہے گی اس وقت تک مسلمانوں میں مذہبی جنون (جہاد) باقی رہے گا، اور جب تک مسلمانوں میں مذہبی جنون موجود رہے گا تب تک انہیں غلام رکھنا ممکن نہیں ہے۔
یہ روایت کہاں تک درست ہے، مگر حقائق کے اعتبار سے اس کی واقعیت میں کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جو مسلمان ایک دفعہ قرآن کریم کے مضامین سے اجمالی طور پر بھی واقف ہو جاتا ہے اسے اسلام سے ہٹانا اور کفر کی کسی بات سے سمجھوتے اور مفاہمت کے لیے تیار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں ایک محفل میں چند دوست حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کیے جانے والے ماڈل دینی مدارس کے بارے میں بات کر رہے تھے اور کچھ خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ گھبرانے والی بات نہیں کیونکہ سرکاری خرچ سے پڑھایا جائے یا غیر سرکاری خرچ سے اگر یہی قرآن کریم پڑھایا جائے گا تو عقیدہ و فکر کے اعتبار سے نتیجہ کچھ مختلف نہیں ہوگا اور قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کے دماغوں پر یکساں اثرات قائم کرے گا۔
تحریک آزادی کے ممتاز رہنما مولانا محمد علی قصوریؒ کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ جس زمانے میں مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ تھے انہی دنوں یوپی (اترپردیش) کے انگریز گورنر سرجان ہیرٹ نے انہیں بلا کر پیشکش کی کہ اگر ندوہ کے نصاب میں حدیث رسولؐ کو لازمی کی بجائے اختیاری مضمون قرار دے دیا جائے اور قرآن کریم کی تعلیم کے نصاب سے سورہ انفال، سورہ توبہ، سورہ ممتحنہ اور سورہ صف کو نکال دیا جائے تو انگریزی حکومت ندوۃ العلماء لکھنؤ کو ایک لاکھ روپے سالانہ گرانٹ دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر مولانا شبلی نعمانی ؒ نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مولانا شبلی نعمانی ؒ کا انتقال ۱۹۱۴ء میں ہوا تھا اور یہ اس سے پہلے کا قصہ ہے۔ اس سے اندازہ کر لیجیے کہ اس وقت کے ایک لاکھ روپے آج کے حساب سے کتنی رقم بنتی ہوگی اور انگریز حکمران ان معاملات میں کس قدر حساس اور سنجیدہ تھے۔ انگریز حکمرانوں کے لیے تشویش کی بات یہ تھی کہ ’’درس نظامی‘‘ کے جس نصاب و نظام کو انہوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد یکسر ختم کر دیا تھا اور اس نظام کو چلانے والے ہزاروں مدارس بند کر کے ان کی جائیدادیں اور بلڈنگیں ضبط کر لی تھیں، وہ چند درویش صفت علماء کی مخلصانہ جدوجہد کی بدولت ایک متوازی نظام کی صورت میں نہ صرف قائم رہا بلکہ دن بدن ترقی کرتے ہوئے دنیا کی تمام استعماری قوتوں کے لیے ایک علمی اور فکری چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا۔
دوسری طرف سر سید احمد خان مرحوم نے انگریزی زبان اور مغربی علوم کی بنیاد پر جس جدید نظام تعلیم کی بنیاد رکھی تھی اور فکر کی آزادی کے نام پر قرآن و سنت کی نت نئی تعبیرات و تشریحات کا جو بیڑا اٹھایا تھا وہ عام مسلمانوں کو ہضم نہ ہوا اور جدید تعلیم کا نظام راسخ العقیدہ اور دیندار مسلمانوں کے تعاون کے بغیر آگے بڑھتا نظر نہ آیا۔ اس لیے وہاں بھی مذہبی معاملات کی باگ ڈور ہر دور میں علماء ہی کے ہاتھ میں دینا پڑی جس کی وجہ سے علی گڑھ کا نظام تعلیم جدید تعلیم کا مرکز تو بن گیا مگر اسلام کی جدید تعبیر و تشریح کا فلسفہ اس نظام میں ایڈجسٹ نہ ہو سکا۔ اس طرح اس جدید نظام تعلیم میں بھی دین اسلام کی جو تھوڑی بہت تعلیم شامل کی گئی وہ سر سید احمد خانؒ کے فلسفے کے بجائے علماء کرام اور امت کے اجماعی عقیدہ و تعامل کے مطابق تھی اور اس کو پڑھانے اور چلانے کے لیے بھی علماء کے روایتی طبقہ سے افراد کار فراہم کیے گئے۔ چنانچہ علی گڑھ محمڈن کالج میں، جو بعد میں یونیورسٹی کہلایا، شعبہ دینیات کے پہلے سربراہ حضرت مولانا عبد اللہ انصاریؒ تھے جو دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد اور اپنے وقت کے بڑے عالم دین تھے۔ انہی مولانا عبد اللہ انصاریؒ کے بیٹے مولانا منصور انصاریؒ تحریک آزادی میں امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے دست راست تھے۔ مولانا منصور انصاریؒ کے فرزند مولانا حامد انصاری معروف کتاب ’’اسلام کا نظام حکومت‘‘ کے مصنف ہیں اور ان کے بیٹے ڈاکٹر عابد اللہ غازی آج کل شکاگو امریکہ میں اسلامی تعلیمات کے ایک بڑے پراجیکٹ کے نگران ہیں۔ علی گڑھ اور اس کی طرز پر چلنے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اگرچہ دینی تعلیم کا مواد بہت کم چلا آرہا ہے مگر جتنا بھی ہے اس کی بنیاد جدید فکر و فلسفہ کی بجائے قدیم روایت پر ہے جو پاکستان کے قیام کے بعد بھی بدستور قائم ہے اور اس میں دینی حلقوں کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے کچھ اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں ہو سکی۔
یہ بات آج کے عالمی تعلیمی حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ قرآن کریم، حدیث رسولؐ اور فقہ اسلامی کا خواہ کتنا تھوڑا حصہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کا مواد قدیمی ہے اور طرز روایتی ہے تو اس کے اثر انداز ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اور اس کی تعلیم و تدریس کے مرحلہ سے گزرنے والا مسلمان عملی لحاظ سے خواہ کتنا ہی بیکار ہو مگر قرآن و سنت اور دین کی بنیادوں کے ساتھ کمٹمنٹ کے اعتبار سے وہ یقیناً بے لچک ثابت ہوگا۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے تعلیمی اداروں اور دیگر بین الاقوامی تعلیمی حلقوں کی طرف سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تعاون سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ سرکاری نصاب تعلیم کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنائے۔ جس سے ان مطلب یہ ہے کہ دینیات کا وہ حصہ جسے بین الاقوامی حلقے بنیاد پرستی میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں اور جس میں جہاد کے احکام کے علاوہ خاندانی نظام اور نکاح و طلاق و وراثت کے احکام بھی شامل ہیں، اسے نصاب سے نکال دیا جائے۔
گزشتہ دنوں قرآنی تعلیم کے مواد سے سورہ توبہ اور سورہ انفال کو طلبہ اور طالبات کے لیے مشکل قرار دیتے ہوئے نصاب سے خارج کرنے کی جو آواز اٹھی تھی وہ اسی پس منظر میں تھی اور اسی تقاضے کی صدائے بازگشت تھی جو ایک صدی قبل یوپی کے انگریز گورنر نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ مولانا شبلی نعمانی ؒ سے کیا تھا۔ لیکن یہ تقاضہ جب خالص غلامی کے دور میں قابل قبول نہیں تھا تو آج بظاہر آزادی کے دور میں کس طرح قبولیت حاصل کر سکتا ہے؟ مگر سیکولر حلقوں کی چابکدستی کی داد دیجیے کہ جو بات وہ سیدھے راستے سے منوانے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے اس کے لیے انہوں نے بالواسطہ طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ جنرل پرویز مشرف کی کابینہ سے یہ فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ نصابی کتابوں کی تیاری اور طباعت کی ذمہ داری سر انجام دینے والے ٹیکسٹ بک بورڈز غیر مؤثر کر دیے گئے ہیں اور اب یہ کام بین الاقوامی اداروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یعنی ان تقاضوں اور مطالبات کو حکومت پاکستان سے براہ راست منوانے میں کامیابی کے امکانات واضح نہ دیکھتے ہوئے بین الاقوامی اداروں نے یہ سارا کام ہی اپنے ہاتھ میں لینے کا راستہ صاف کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے دینی حلقے اور محب وطن تعلیمی ادارے اس صورتحال کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے اس ’’کامیاب وار‘‘ کے توڑ کے لیے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں؟