یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت

   
۲۲ اگست ۲۰۱۷ء

اس سال بھی یوم آزادی کے حوالہ سے دینی مدارس میں تقریبات کا سلسلہ رہا اور تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے مختلف مراحل کا ان تقریبات میں تذکرہ ہوا۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا محمد فیاض خان سواتی نے اس سلسلہ میں عمومی معاشرتی مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے ایک تبصرے میں اس خدشہ کا بجا طور پر اظہار کیا ہے کہ اگر ان تقریبات کو ایک مناسب دائرے میں کنٹرول نہ کیا گیا تو بہت سی غیر متعلقہ سرگرمیوں کے ان کے ساتھ شامل ہونے سے مستقبل میں بعض مسائل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم آزادی اور ایک نئی اسلامی ریاست کے حصول پر جس طرح دینی مدارس میں خوشی اور جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ملک و قوم کے ساتھ اہل دین کی محبت کی علامت ہے۔ راقم الحروف کو بھی بعض تقریبات میں حسبِ ذیل ترتیب کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔

  • ۱۱ اگست کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے بیان کا موضوع یہی تھا۔
  • ہر جمعہ کو مجلس صوت الاسلام کلفٹن کراچی کے زیراہتمام تین سے چار بجے تک آن لائن کلاس ہوتی ہے جس میں کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور کے سینکڑوں علماء کرام شریک ہوتے ہیں۔ ۱۱ اگست کو تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالہ سے ان سے گفتگو ہوئی۔
  • ۱۲ اگست بروز ہفتہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دورۂ حدیث کے طلبہ کے تقاضے پر طحاوی شریف کے پیریڈ میں ان سے اس عنوان پر بات چیت کی۔ جبکہ اسی روز بعد نماز مغرب ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کی جامع مسجد حنفیہ میں تحریک پاکستان میں علماء حق کے کردار کے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب ہوا۔
  • ۱۳ اگست اتوار کو صبح ۱۱ بجے جوہر ٹاؤن لاہور کے مدرسہ مفتاح العلوم میں متحدہ علماء کونسل کے زیراہتمام تقریب تھی جس میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ ہوا۔ جبکہ اسی روز بعد نماز مغرب مکی مسجد ملتان روڈ لاہور میں علماء کرام کے ایک بھرپور اجتماع میں اس سلسلہ میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
  • ۱۴ اگست کو ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ظہر سے قبل پرچم کشائی اور بیانات کی ایک باوقار تقریب میں شرکت ہوئی۔ مولانا مفتی محمد طیب اور مولانا مفتی محمد زاہد کی نگرانی میں جامعہ کے متعدد طلبہ نے مختلف زبانوں میں آزادی اور پاکستان کے موضوعات پر گفتگو کی اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔ اسی روز بعد نماز ظہر جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں علماء کرام اور طلبہ کی ایک بھرپور نشست تھی جس میں تفصیل کے ساتھ تحریک پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا گیا۔ جبکہ بعد نماز عصر قرآن سنٹر ڈجکوٹ روڈ میں پیر ریاض احمد قادری صاحب نے بھی ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔

ان تقریبات میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا دائرہ بہت متنوع اور وسیع ہے اور سب باتوں کا تذکرہ ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان میں سے کچھ معروضات اختصار کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

برطانوی استعمار سے آزادی اور پاکستان کا قیام دونوں مستقل نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ساتھ عطا فرمائیں مگر ہم نے ان کی قدر نہیں کی اور آج ہم قومی سطح پر جس خلفشار اور باہمی بے اعتمادی کا شکار ہیں وہ اسی ناقدری و ناشکری کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، لیکن اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہوتا ہے۔ ہماری آج کی عمومی صورتحال یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ راضی ہوں تو ہمارا یہ حال نہ ہو۔ اس لیے ہمیں اپنی اجتماعی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے اور قومی طور پر معافی مانگتے ہوئے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یوم آزادی کا ہمارے لیے یہی سب سے بڑا پیغام ہے۔

پاکستان کے قیام کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان کے قائدین خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے قیام پاکستان سے قبل اپنی عوامی تقریروں میں اسلام، نظریۂ پاکستان اور قرآن و سنت کی حکمرانی کی جو باتیں کی تھیں وہ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تھیں، جبکہ ان کا مقصد کسی نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام نہیں تھا۔ یہ بات خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم مرحوم اور ان کے رفقاء کے بارے میں بدگمانی کا اظہار بھی ہے کہ انہوں نے اسلام کا نام سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔

قائد اعظم مرحوم کو آج کے دور کے ان انتخابی امیدواروں کی صف میں کھڑا کرنا جو محض عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی وعدے کرتے ہیں، قائد اعظم کی عزت نہیں بلکہ ان کی توہین ہے۔ لیکن بالفرض ان حلقوں کی یہ بات چند لمحوں کے لیے مان بھی لی جائے کہ تحریک پاکستان کے دوران اسلام کا نام سیاسی نعرے کے طور پر لیا جاتا تھا تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے جو تقریر کی تھی وہ کون سی انتخابی تقریر تھی؟ اس تقریر میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کو فساد اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معیشت ہی دنیا کو امن و انصاف فراہم کر سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی یہ تقریر انتخابی اور سیاسی نہیں بلکہ ایک پالیسی خطاب کی حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں قائد اعظم کے جذبات و عزائم کے بارے میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا قیام اسلامی احکام کی عملداری اور مسلمانوں کے مذہبی امتیاز اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اس کے علاوہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا اور کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ صرف مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کا تحفظ اور اسے ہندو تہذیب میں ضم ہونے سے بچانا تھا، اس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ نہیں تھا۔ میری گزارش یہ ہے کہ بالفرض اگر یہی بات تھی کہ تہذیب و ثقافت کے امتیاز و تشخص کو باقی رکھنے کے لیے الگ ملک حاصل کیا گیا تھا، تو آج مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ لوگ کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ہماری ملی و علاقائی تہذیب مسلسل مغربی اور ہندو ثقافت کی دوطرفہ یلغار کی زد میں ہے اور سیکولر حضرات اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے سرے سے پاکستانی تہذیب کے وجود سے ہی انکار کرتے جا رہے ہیں۔ میں ان حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اسلامی نظام کی بات نہیں کرنا چاہتے تو مسلمان قوم کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا محاذ ہی سنبھال لیں اور آگے بڑھ کر مغربی اور ہندو تہذیب و ثقافت کی یلغار کا مقابلہ کریں، اسلامی نظام کی بات ہم خود کر لیں گے۔

ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کے نام سے الگ ریاست کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کا معاشی تحفظ تھا۔ چلیں ہم یہ بات بھی تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں، تو مسلمانوں کو ہندوؤں کے معاشی غلبہ کے خوف سے نکال کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی معاشی بالادستی کے شکنجے میں جکڑ دینا کونسی قوم پرستی ہے؟ پاکستان بننے کے بعد سے ہم مغرب کے معاشی حصار کا شکار ہیں اور اب اس سے نکل کر مشرق کے معاشی حصار کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس کو حب الوطنی اور قومی وقار کا کون سا معیار قرار دیا جائے گا؟ مسلمانوں کے معاشی تحفظ کا مطلب ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی معیشت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ ہم ایک عرصہ سے عالمی استعمار کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں قیام پاکستان کے اصل مقصد کی طرف واپس جانا ہوگا اور اسلامی احکام و قوانین کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے اعلانات کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر نہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی قوموں کی برادری میں کوئی باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter