۳ جنوری کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے قائد اعظم ہال میں ’’تحفظ ناموس رسالتؐ سیمینار‘‘ کا انعقاد ہوا جس کی میزبان ڈسٹرکٹ بار تھی جبکہ انتظامات میں ’’شبان ختم نبوت‘‘ کا بھرپور تعاون شامل رہا۔ سیمینار کی صدارت ڈسٹرکٹ بار کے صدر جناب نور محمد مرزا ایڈووکیٹ نے کی اور بار کے سیکرٹری چودھری ظہیر احمد چیمہ ایڈووکیٹ نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔ نوجوان وکیل وسیم سجاد جنجوعہ ایڈووکیٹ اپنے رفقاء کے ہمراہ سیمینار کے اہتمام میں پیش پیش تھے اور معروف قانون دان جناب جسٹس (ر) نذیر اختر نے مہمان خصوصی کے طور پر تفصیلی خطاب کیا، ان کے علاوہ شبان ختم نبوت پاکستان کے سربراہ مولانا منیر احمد علوی اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا، اس موقع پر پیش کی جانے والی معروضات نذر قارئین ہیں۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ میں سب سے پہلے گوجرانوالہ کے وکلاء اور ڈسٹرکٹ بار کو اس حالیہ کامیابی پر مبارکباد پیش کروں گا جو گوجرانوالہ میں لاہور ہائیکورٹ کا بینچ قائم کرنے کے سلسلہ میں انہوں نے حاصل کی ہے۔ یہ گوجرانوالہ ڈویژن کے عوام کا حق اور وکلاء کا جائز مطالبہ تھا جسے پورا کرنے پر حکومت بھی تحسین کی مستحق ہے۔ تحفظ ناموس رسالتؐ کے عنوان پر وکلاء کا یہ سیمینار آپ حضرات کے ایمانی ذوق اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی علامت ہے۔ گوجرانوالہ کے وکلاء نے ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی جدوجہد میں ہمیشہ بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہمارا ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ، ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت، اور اس کے بعد تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ میں وکلاء سے مسلسل رابطہ رہا ہے اور مجھے جناب میاں منظور الحسن ایڈووکیٹ مرحوم، جناب ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم، جناب نوید انور نوید ایڈووکیٹ مرحوم اور دیگر سرکردہ وکلاء یاد آرہے ہیں جنہوں نے دینی تحریکات میں شاندار کردار ادا کیا۔ محترم جناب جسٹس (ر) نذیر اختر میرے بعد گفتگو کرنے والے ہیں اس لیے میں طویل گفتگو کرنے کی بجائے اختصار کے ساتھ دو تین نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ اس وقت ہمیں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے حوالہ سے جس شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے اس میں اصل تنازعہ کیا ہے اور مابہ النزاع کون سی بات ہے؟ ابھی میرے ایک مضمون کی کاپی آپ حضرات کے درمیان تقسیم کی گئی ہے جس میں باحوالہ طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ جون ۲۰۰۷ء کے دوران امریکہ کے مذہبی آزادی کے قومی کمیشن نے حکومت پاکستان سے باضابطہ طور پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ختم کرنے کے ساتھ ساتھ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ فعل قرار دیا جائے۔ جبکہ ۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ کی مذہبی آزادی کی خصوصی کمیٹی نے بھی یہ تقاضا کیا کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین سے متعلقہ قوانین کو دنیا بھر میں ختم کر دیا جائے اور اسے جرائم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم ہے یا نہیں؟ ہم اسے جرم قرار دیتے ہیں، اس پر سزا کی بات کرتے ہیں اور ہمارا دستور و قانون بھی یہی کہتا ہے، مگر مغرب کی حکومتیں اور عالمی ادارے اسے جرم تسلیم نہیں کرتے بلکہ آزادیٔ رائے کے ٹائٹل کے ساتھ اسے حقوق میں شمار کرتے ہیں، اس لیے اصل تنازعہ اس نکتہ پر ہے کہ مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کا عمل حقوق میں گنا جائے یا اسے جرائم کی فہرست میں شمار کیا جائے۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھوں گا کہ مغرب اور عالمی ادارے انسان کی عزت نفس اور حرمت و تکریم کا مسلسل پرچار کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں بھی اس کا اہتمام کے ساتھ نمایاں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے ہر ملک میں عام شہریوں کو ہتک عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی پر قانونی داد رسی کا حق حاصل ہے اور کسی بھی شہری کی ہتک عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہی حق اگر مذہبی شخصیات بالخصوص حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے حوالہ سے طلب کیا جائے تو اسے آزادیٔ رائے کے نام پر توہین کرنے والے کا حق قرار دے کر جرائم کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اصل ضرورت مغربی حکومتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ اس مکالمہ اور مطالبہ کی ہے کہ وہ مذہب اور مذہبی شخصیات بالخصوص حضرات انبیاء کرامؑ کا یہ حق تسلیم کریں کہ ان کی توہین جرم ہے اور اس کا مواخذہ ضروری ہے۔ بلکہ یہ اس لحاظ سے دہرا جرم بن جاتا ہے کہ اس سے دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور انہیں اس سے شدید اذیت اور کوفت ہوتی ہے۔
دوسری گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ یہ مسئلہ جو کسی عمل کو جرم تسلیم کرنے یا نہ کرنے اور دنیا سے اسے جرم قرار دلوانے کا ہے، بنیادی طور پر وکلاء اور عدالتوں کے کرنے کا کام ہے۔ اس کیس کی پیروی کا صحیح فورم بینچ اور بار ہی ہے۔ ہم لوگ تو خادم اور کارکن ہیں اور رہیں گے ان شاء اللہ تعالٰی مگر اصولی بات یہ ہے کہ یہ محاذ وکلاء کو سنبھالنا چاہیے اور بار کو اسے اپنے دائرہ کا کام سمجھ کر اس کا پرچم اٹھانا چاہیے۔ میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے سامنے یہ مسئلہ آج کے اس سیمینار کی وساطت سے باضابطہ پیش کر رہا ہوں کہ وہ اس پر غور کریں، مسئلہ قانون کا ہے، جرم کا ہے اور حقوق کا ہے۔ اس کے لیے یہی فورم سب سے زیادہ موزوں اور فطری ہے۔ ہم بطور کارکن آپ کے ساتھ ہوں گے اور بار کے پرچم تلے تحفظ ناموس رسالتؐ کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
تیسری اور آخری گزارش یہ ہے کہ یہ کام کرنے کی عملی صورت کیا ہونی چاہیے؟ جہاں تک بین الاقوامی دباؤ کا مقابلہ کرنے اور ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف سازشوں پر نظر رکھنے کی بات ہے وہ ہم دینی حلقے کر رہے ہیں اور بحمد اللہ تعالٰی سول سوسائٹی اور عوام بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ مگر اس کیس کو بین الاقوامی اداروں میں لے جانے اور وہاں دلیل و منطق کے ساتھ اپنا موقف منوانے کے لیے جو محنت درکار ہے وہ نظر نہیں آرہی اور اس کی شدید ضرورت ہے۔ یہ پیپر ورک اور لابنگ کا محاذ ہے، منطق اور استدلال کا محاذ ہے، میری معلومات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحول میں اس کے لیے آغا شاہی مرحوم نے خاصی محنت کی تھی اور اب پاکستان کی موجودہ سفیر محترمہ ملیحہ لودھی بھی کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں مگر ضرورت اس سے کہیں منظم محنت کی ہے اور یہ کام وکلاء کے کرنے کا ہے، امید ہے کہ گوجرانوالہ بار اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے ضرور غور کرے گی۔