سعودی دانشور ڈاکٹر محمد المسعری کے خیالات

ڈاکٹر محمد المسعری نے کہا کہ طالبان کو اپنا نظام باقاعدہ طور پر تشکیل دینا چاہیے، اس کا اعلان کرنا چاہیے اور اس کے لیے عالم اسلام کے دانشوروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ طالبان نے اپنے داخلی نظام کی بنیاد فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری پر رکھی ہے مگر میرے خیال میں انہیں فتاویٰ عالمگیری کی بجائے اس کے مرتب کرنے والے حکمران سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کی پیروی کرنی چاہیے جنہوں نے اس وقت کے منتخب اربابِ علم و دانش کو جمع کر کے اس دور کے تقاضوں کے مطابق فتاوٰی عالمگیری کے نام سے ایک نظام مرتب کرایا اور اسے نافذ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ و ۵ ستمبر ۱۹۹۹ء

حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ

گزشتہ دو روز سے صدمہ در صدمہ در صدمہ کی کیفیت میں ہوں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی وفات پر صدمہ کے اظہار کے لیے حواس کو مجتمع کر رہا تھا کہ مدینہ منورہ سے استاذِ محترم حضرت قاری محمد انورؒ کی وفات کی خبر نے دوہرے صدمے سے دوچار کر دیا ۔ اور ابھی اس کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش میں تھا کہ جنوبی افریقہ سے حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کی اچانک وفات کی خبر آگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تینوں بزرگوں کا تذکرہ خاصی تفصیل کا متقاضی ہے مگر سرِدست ابتدائی تاثرات ہی پیش کر سکوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جنوری ۲۰۱۷ء

اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نقطۂ نظر

اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایک بار پھر یہ تقاضہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں ناموسِ رسالت کے تحفظ کا قانون تبدیل کیا جائے۔ توہینِ رسالتؐ پر سزا کا قانون، تحفظ ختم نبوت کی قانونی دفعات، نافذ شدہ چند شرعی قوانین اور دستور کی اسلامی دفعات ایک عرصہ سے بین الاقوامی دباؤ کی زد میں ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بہت سے عالمی ادارے ہمارے ان قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر ان کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ تا ۳۰ دسمبر ۲۰۱۷ء

سرکاری شریعت ایکٹ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ

وفاقی شرعی عدالت نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ شریعت ایکٹ کی دفعہ ۳ اور ۱۹ کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کی رپورٹ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے فل بینچ نے جو چیف جسٹس جناب جسٹس تنزیل الرحمان، جناب جسٹس فدا محمد خان اور جناب جسٹس میر ہزار خان پر مشتمل تھا، یہ فیصلہ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کے کنوینر جناب محمد اسماعیل قریشی اور دیگر تین شہریوں کی درخواست پر صادر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مئی ۱۹۹۲ء

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات

پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ آف پاکستان نے ۱۳ مئی ۱۹۹۰ء کو ’’نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۰ء‘‘ کے عنوان سے ایک نئے مسودہ قانون کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ یہ مسودہ قانون اسی ’’شریعت بل‘‘ کی ترمیم شدہ شکل ہے جو سینٹ کے دو معزز ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے ۱۹۸۵ء کے دوران سینٹ کے سامنے پیش کیا تھا اور اس پر ایوان کے اندر اور باہر مسلسل پانچ برس تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہا۔ سینٹ آف پاکستان نے شریعت بل کے مسودہ پر نظر ثانی کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف کمیٹیاں تشکیل دیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۰ء

صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس

ہم ان سطور میں اس سے قبل بھی عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے زیادہ مسرت کی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ پاکستان میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور بالادستی کے لیے ایسی مؤثر پیش رفت ہو جس سے ملک کے قانونی، عدالتی اور معاشی نظام میں کوئی عملی تبدیلی بھی نظر آئے۔ بدقسمتی سے گزشتہ گیارہ سال سے اس ضمن میں ہونے والے اسلامی اقدامات اس معیار پر پورے نہیں اترتے اور انہی تجربات کے باعث ملک کے سنجیدہ حلقے اس نئے او ربظاہر بہت اہم اقدام کے ساتھ بھی اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں پا رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۸۸ء ۔ جلد ۳۱ شمارہ ۲۵

مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست

قائدِ محترم حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی علمی، دینی اور سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے ان کی جو امتیازی خصوصیات او رنمایاں پہلو دکھائی دیتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرحوم نے قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہو کر خود کو اس میں جذب نہیں کر دیا بلکہ وہ اس دھارے کو اپنے عزائم اور مقاصد کی طرف موڑنے میں کامیاب بھی رہے۔ اور اگر آپ آج سے پچیس سال قبل کی قومی سیاست کا آج کی قومی سیاست سے موازنہ کریں گے تو ان نمایاں تبدیلیوں کے پس منظر میں مولانا مفتی محمودؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد جھلکتی نظر آئے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اپریل ۱۹۸۱ء

حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کا شمار تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے ان عظیم المرتبت قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و فضل، جہد و عمل اور ایثار و استقامت کے ساتھ تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی کی روشن شمعیں جلا کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ایک ایسی جامع الکمالات شخصیت تھے جو بیک وقت اپنے دور کے بہت بڑے محدث، مفسر، متکلم، محقق اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ بصیرت سیاستدان بھی تھے اور انہوں نے علم و فضل کے ہر شعبہ میں اپنی مہارت اور فضیلت کا لوہا منوایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۱۹۹۶ء

الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ

الشیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ کا نام پہلی بار افغانستان کی پہاڑیوں میں جہادِ افغانستان کے دوران سنا جب افغانستان میں روسی افواج کی آمد اور سوشلسٹ نظریات کے تسلط کے خلاف افغانستان کے مختلف حصوں میں علماء کرام اور مجاہدینِ آزادی نے علمِ جہاد بلند کیا اور افغانستان کی آزادی کی بحالی اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے میدانِ کارزار میں سرگرم ہوگئے۔ ابتداء میں یہ مجاہدین کسمپرسی کے عالم میں لڑتے رہے حتیٰ کہ پرانی بندوقوں اور بوسیدہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بوتلوں میں صابن اور پٹرول بھر کر ان دستی بموں کے ساتھ روسی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ مئی ۲۰۱۱ء

تجدیدِ عہد برائے دفاع وطن

آج کی اس تقریب کا عنوان ’’تجدیدِ عہد اور دفاعِ وطن‘‘ ہے مگر میں اس میں ایک لفظی ترمیم کر کے اسے ’’تجدیدِ عہد برائے دفاعِ وطن‘‘ کی صورت میں پیش کرنا چاہوں گا اور اپنے ان عزیز نوجوانوں کو جو اسلام، وطن اور قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، وطنِ عزیز پاکستان کے حوالہ سے چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ وطنِ عزیز پاکستان اس وقت ہم سے جن باتوں کا تقاضہ کر رہا ہے اسے سامنے رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ وطنِ عزیز کا پہلا تقاضہ پاکستان کی تکمیل ہے، جغرافیائی تکمیل بھی، نظریاتی تکمیل بھی اور معاشی تکمیل بھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۱۷ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter