حضرت درخواستیؒ کی پون صدی کی جدوجہد اور اہداف

مجھے 1960ء میں حضرت درخواستیؒ کو قرآن کریم حفظ کا آخری سبق سنا کر ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا اور پھر ان کی وفات تک عقیدت و محبت اور وفاداری کا سلسلہ قائم رہا۔ ان کے ساتھ سفر و حضر اور جلوت و خلوت کی رفاقت کے اس طویل سلسلہ کی بے شمار یادیں ہیں جن کا تذکرہ شروع کردوں تو کسی ایک پہلو کا بھی اس محفل میں شاید احاطہ نہ ہو سکے۔ چنانچہ ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ ہے، اور چونکہ میں خود اس مورچے اور محاذ کا آدمی ہوں اس لیے طبعی طور پر اسی پہلو کو گفتگو کے لیے ترجیح دینا زیادہ پسند کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اکتوبر ۲۰۰۰ء

آہ! رخصت ہوا شیخ درخواستیؒ

مجھے شعر و شاعری کے ساتھ ایک سامع اور قاری کی حیثیت سے زیادہ کبھی دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہی عروض و قافیہ کے فن سے آشنا ہوں۔ تاہم شاید یہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا کرشمہ ہے کہ گزشتہ روز گلاسگو میں ان کی وفات کی خبر ملی تو طبیعت بہت بے چین رہی۔ گلاسگو سے لندن واپس آتے ہوئے دورانِ سفر جذباتِ غم مندرجہ ذیل اشعار کی صورت اختیار کر گئے جو میری زندگی کی پہلی کاوش ہے۔ اہلِ فن سے معذرت کے ساتھ یہ منظوم جذباتِ غم پیش خدمت ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۴ء

حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی

میں 20 جون کو واشنگٹن پہنچا تھا، اس سے ایک دو دن بعد کی بات ہے کہ نماز فجر کے بعد درس دے کر دارالہدٰی کی لائبریری میں سوگیا۔ خواب میں دیکھا کہ پاکستان میں ہوں اور اچانک اطلاع آئی ہے کہ حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کا انتقال ہوگیا ہے، گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر ویگن کے ذریعے چنیوٹ پہنچا اور دیکھا کہ مولانا کی میت چارپائی پر ہے اور چاروں طرف سوگوار حضرات بیٹھے ہیں۔ میں ان کے صاحبزادوں میں سے کسی کو نظروں نظروں میں تلاش کر رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۲۰۰۴ء

مولانا علی احمد جامیؒ

مولانا علی احمد جامیؒ کھیالی گوجرانوالہ کے رہائشی تھے اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے طالب علمی کے دور سے میرے ساتھی تھے۔ انہوں نے ساری زندگی دینی جدوجہد میں گزاری، جمعیۃ علمائے اسلام (س) کے ضلعی امیر تھے، اور اب صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی نے صوبائی امارت کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا مگر مسلسل علالت کی وجہ سے وہ کسی عملی ذمہ داری کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ متحدہ مجلس عمل ضلع گوجرانوالہ کے صدر رہے اور تحریک ختم نبوت میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

ڈاکٹر غلام محمد مرحوم

مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک سو روپے ماہانہ وظیفے پر مبلغ کی حیثیت سے کام شروع کیا اور غالباً ایک سو روپے کی مالیت کا ایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل خرید کر انہیں دیا گیا جس پر انہوں نے ضلع بھر میں گاؤں گاؤں گھوم کر جمعیۃ کو منظم کیا۔ پھر انہیں جمعیۃ کا ضلعی سیکرٹری جنرل چن لیا گیا اور ایک مدت تک وہ اس حیثیت سے سرگرم عمل رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم شہر میں ہوتے تو میرا دفتر ہی ان کا دفتر ہوتا تھا۔ اور اکثر ایسا ہوتا کہ ان کی جیب میں خرچ کے لیے پیسے نہ ہوتے تو میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا جتنے پیسے نکلتے ہم آدھے آدھے تقسیم کر لیتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

مولانا حافظ عبد الرشید ارشد مرحوم

مولانا حافظ عبد الرشید ارشد کا تعلق میاں چنوں سے تھا۔ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے فیض یافتہ تھے اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی کے رفقاء میں سے تھے۔ پاکستان میں علماء دیوبند کے مسلک اور تعارف کو فروغ دینے میں جامعہ رشیدیہ اور اس کے دورِ اول کے بزرگوں کا جو کردار رہا ہے وہ بجائے خود دینی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ مولانا حافظ عبد الرشید ارشدؒ کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے پڑھنے اور طباعت و اشاعت کا خصوصی ذوق عطا کیا تھا، دینی لٹریچر کی عمدہ طباعت و اشاعت میں خاص دلچسپی رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

حافظ محمد صادق مرحوم

1967ء سے 1970ء تک جمعیۃ علمائے اسلام کا جو دور گزرا اور جس میں جمعیۃ قومی سیاست میں ایک باشعور اور حوصلہ مند سیاسی قوت کے طور پر متعارف ہوئی اس دور کے ملک بھر کے چند گنے چنے کارکنوں میں حافظ صاحب مرحوم کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ جیسے بزرگوں کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور ان کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی۔ حافظ محمد صادق مرحوم اپنا کاروبار کرتے تھے اور جمعیۃ کا کام بھی کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۴ء

مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ

مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے داماد تھے اور ان کی جگہ مرکزی جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بنیادی طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق تھا اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں ہمہ تن منہمک رہتے تھے لیکن حضرت مفتی زین العابدینؒ کی طرح سیاسی اور تحریکی ذوق سے بھی بہرہ ور تھے۔ کچہری بازار کی مرکزی جامع مسجد فیصل آباد میں دینی و سیاسی تحریکات کا مرکز رہی ہے اور اب بھی ہے۔ مفتی ضیاء الحق صاحبؒ اس کے تقاضوں سے بے خبر نہیں تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۲۰۰۴ء

حاجی غلام دستگیر مرحوم

ڈاکٹر حاجی غلام دستگیر مرحوم شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرؒ مدنی کے خلفاء میں سے تھے۔ انارکلی لاہور سے باہر مسلم مسجد کے نیچے ’’لاہور میڈیسن‘‘ کے نام سے ان کی دکان ہوا کرتی تھی جس میں ان کے ساتھی ان کے بھائی حاجی غلام سبحانی صاحب تھے جو کچھ عرصہ قبل حجازِ مقدس منتقل ہوگئے ہیں۔ لوئر مال روڈ پر ایم اے او کالج کے قریب حاجی غلام دستگیر مرحوم کی رہائش تھی جو ایک زمانے میں قومی سیاست کا مرکز رہی ہے۔ حاجی صاحب کا گھر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا مہمان خانہ ہوا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

الرشید ٹرسٹ ۔ حکومت سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ قبول کرے

سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ کے فنڈز منجمد کرنے کے بارے میں اسٹیٹ بینک کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ملک بھر میں اسے انصاف کی فتح قرار دیتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ الرشید ٹرسٹ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ کے بعد اس وقت امریکی دباؤ کی زد میں آگیا تھا جب امریکہ نے عالم اسلام کی جہادی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں کچلنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مسلم دنیا کے سینکڑوں رفاہی ادارے صرف اس لیے اس دباؤ کے دائرے میں آگئے تھے کہ ان کی رفاہی سرگرمیاں اسلام اور دینی تعلیمات کے حوالے سے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۲۰۰۳ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter