صدر جنرل محمد ضیاء الحق کا نفاذ شریعت آرڈیننس

   
جون ۱۹۸۸ء ۔ جلد ۳۱ شمارہ ۲۵

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۴ جون کو ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بالآخر ’’نفاذِ شریعت آرڈیننس‘‘ کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے جس پر ملک بھر میں مثبت اور منفی ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے۔ صدر مملکت نے اپنے نافذ کردہ اس نفاذ شریعت آرڈیننس کو سینٹ میں علماء کے پیش کردہ شریعت بل اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ہونے والی جدوجہد کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دینے کی کوشش کی ہے اور نشری تقریر میں یہ تاثر دیا ہے کہ نفاذ شریعت آرڈیننس کے ذریعہ دینی و قومی حلقوں کے اس دیرینہ مطالبہ کو پورا کر دیا گیا ہے جو ملک میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے قیام پاکستان کے بعد سے کیا جا رہا ہے۔

ہم ان سطور میں اس سے قبل بھی عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے زیادہ مسرت کی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ پاکستان میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور بالادستی کے لیے ایسی مؤثر پیش رفت ہو جس سے ملک کے قانونی، عدالتی اور معاشی نظام میں کوئی عملی تبدیلی بھی نظر آئے۔ بدقسمتی سے گزشتہ گیارہ سال سے اس ضمن میں ہونے والے اسلامی اقدامات اس معیار پر پورے نہیں اترتے اور انہی تجربات کے باعث ملک کے سنجیدہ حلقے اس نئے او ربظاہر بہت اہم اقدام کے ساتھ بھی اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں پا رہے۔

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا موقف ہمیشہ متوازن اور معتدل رہا ہے کیونکہ علماء حق کو نہ تو کریڈٹ سے کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ ہی وہ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے جمعیۃ کے قائدین شریعت بل کے متن اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر نفاذ شریعت آرڈیننس کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔ ۲۶ جون کو مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں اس سلسلہ میں جماعتی موقف کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اگر اس آرڈیننس سے شریعت اسلامیہ کے مطابق ملک کے نظام میں عملی تبدیلی کی کوئی صورت نظر آئی تو اس کی تائید و حمایت میں بخل سے کام نہیں لیا جائے گا۔ لیکن اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور شریعت کے نام پر منافقت کی حوصلہ افزائی نہ اس سے قبل جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے کی ہے اور نہ ہی علماء حق کے اس اصول پرست گروہ سے کسی کو ایسی توقع رکھنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter