بوسیدہ مصاحف و اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کی عملی صورتیں

   
تاریخ : 
یکم اپریل ۲۰۱۱ء

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق اور شہید ہو جانے والے نسخوں کا مسئلہ ہر دور میں زیربحث رہا ہے۔ ان بوسیدہ مصاحف اور اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کی مختلف عملی صورتیں سامنے آتی رہی ہیں جن میں انہیں نذرِ آتش کر کے راکھ کو کسی محفوظ جگہ دفن کر دینے، کسی پرانے کنویں میں ڈال دینے یا الگ تھلگ زمین میں دفن کر دینے کے طریقے ہمارے ہاں قابل استعمال رہے ہیں۔ جبکہ نذرِ آتش کر دینے کے طریقے پر بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ کیا یہ بجائے خود بے حرمتی کے زمرے میں تو شمار نہیں ہوتا؟ اس پر بعض مقامات پر جھگڑوں اور تنازعات کی صورت بھی پیدا ہو جاتی رہی ہے۔ ان میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ کسی جاری نہر میں ایسے اوراق کو ڈال دیا جائے تاکہ پانی کے ساتھ وہ بھی بہہ جائیں لیکن لاہور کے اندر گندے نالے والی نہر میں، جس میں شہر کا گندا پانی بھی شامل ہو جاتا ہے، ایسے مقدس اوراق کو بہتا دیکھ کر کچھ حساس مسلمان پریشان ہوگئے۔ پھر جب اس بات کا انہوں نے قدرے تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا تو صورتحال پریشانی سے بڑھ کر اضطراب اور بے چینی کا موجب بنتی گئی کہ گندگی کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ مقدار میں مقدس اوراق اس نہر میں موجود پائے گئے۔

ان حساس مسلمانوں میں ایک ناظم الدین صاحب بھی ہیں جو لاہور کے ایک کاروباری بزرگ ہیں اور گزشتہ ۲۵ برس سے مقدس اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے نہر سے ایسے مقدس اوراق کو نکال کر صاف کرنے اور شہر کی مساجد سے جمع کرنے کا کام سنبھال لیا اور کوئٹہ میں واقع ایک پہاڑ کے غار میں جو ’’جبل نور القرآن‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا ہے، ہزاروں بوریاں پہنچائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وسیع غار میں دس لاکھ بوریاں ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ ناظم الدین صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو سال کے عرصے میں ۲۳ ہزار بوریاں اس غار تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی۔ دوسری طرف وہ اربابِ اقتدار کو بھی توجہ دلاتے رہے کہ وہ اس سلسلہ میں قانون سازی کریں کیونکہ قرآن کریم کے مقدس مصاحف اور اوراق کے جلد بوسیدہ ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں قرآن کریم بہت ہلکے کاغذ پر طبع ہوتا آرہا ہے جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا۔ ہلکے کاغذ پر قرآن کریم کی طباعت کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عام آدمی کو کم ہدیہ پر قرآن کریم میسر آسکے لیکن اس سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ پریشان کن ہیں۔

  • اس سلسلہ میں سب سے پہلے ۱۹۷۳ء میں قومی اسمبلی نے ایک ایکٹ منظور کیا جس میں پابندی لگا دی گئی کہ ۵۲ گرام وزن سے کم معیار کے کاغذ پر قرآن کریم طبع نہیں کیا جا سکتا۔ پابندی تو لگا دی گئی مگر اس پر کوئی ایسی سزا مقرر نہ کی گئی جس سے یہ عمل رک سکے۔
  • ۲۰۰۹ء میں اس ایکٹ میں ترمیم کر کے تین سال قید اور ۲۵ ہزار روپے جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ناظم الدین صاحب کی کوششوں سے یہ مسئلہ قومی اسمبلی، سینٹ آف پاکستان اور ضلع کونسل لاہور میں بھی زیربحث آتا رہا۔
  • ۲۰۰۲ء میں سٹی گورنمنٹ لاہور کے ۱۶۶ ارکان کے دستخطوں سے یہ طے پایا کہ قرآن کریم کی طباعت کم از کم ۶۸ گرام وزن کے کاغذ پر ہوگی اور اس مقصد کے لیے اس سے کم معیار کا کاغذ استعمال کرنا جرم ہوگا۔
  • ۲۰۰۴ء کے دوران قومی اسمبلی میں مولانا عبد المالک اور جناب لیاقت بلوچ کی تحریک پر ’’قرآن بل‘‘ زیر بحث آیا جبکہ سینٹ میں متحدہ مجلس عمل کی ڈاکٹر فردوس کوثر نے اس بل کی تحریک کی جس پر مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں اسٹینڈنگ کمیٹی بنائی گئی مگر کوئی عملی پیشرفت نہ ہو سکی۔
  • ۲۰۰۸ء میں اس وقت کی قومی اسمبلی میں چودھری برجیس طاہر، مسز شکیلہ خانم راشد، مسز بشریٰ رحمان اور ڈاکٹر دانیال عزیز نے یہ مسئلہ اٹھایا مگر یہ مسئلہ طے ہو جانے کے مرحلے میں تھا کہ دستورِ پاکستان کی ۱۹ویں ترمیم کے تحت اس قسم کے مسائل صوبائی حکومتوں کے دائرۂ اختیار میں منتقل ہوگئے۔
  • اور اب جہاں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اس مسئلہ پر ایک بل لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں وہاں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ بھی جسٹس شیخ احمد فاروق کے ہاں زیربحث ہے۔ اس سے قبل جب یہ بل قومی اسمبلی میں زیربحث تھا تو صوبائی حکومتوں سے بھی استفسار کیا گیا جس پر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس سے اتفاق کا اظہار کیا۔

اس کے ساتھ اس سلسلہ میں پنجاب قرآن بورڈ کی جدوجہد پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جو چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کے دوران قائم ہوا اور ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے بورڈ نے مختلف مسائل کے حوالے سے خاصی سرگرمی دکھائی۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین تھے جو ذاتی طور پر بھی بہت متحرک شخصیت ہیں۔ اس دور میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کو جمع کر کے مشورہ کیا گیا کہ بہتر اور معیاری کاغذ پر قرآن کریم کی طباعت کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ بوسیدہ اور ناقابل استعمال ہو جانے والے کاغذات کو باوقار طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے کیا صورت اختیار کی جانی چاہیے۔ راقم الحروف بھی پنجاب قرآن بورڈ کے ممبر کی حیثیت سے ان اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا اور ان سرگرمیوں کا حصہ چلا آرہا ہے۔ چنانچہ تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی باہمی مشاورت کے ساتھ طے پایا کہ اس مسئلہ کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ایسے مقدس اوراق کو جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے اور انہیں ری سائیکل کر کے دوبارہ کاغذ کی شکل دینے کی عملی صورت پیدا کی جائے۔ اس پر محکمہ اوقاف کے زیراہتمام مختلف شہروں میں ’’قرآن محل‘‘ قائم کیے گئے تاکہ مساجد و مدارس اور دیگر مراکز سے ایسے مقدس اوراق کو وہاں جمع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی لاہور کی ایک فیکٹری کے ساتھ ان اوراق کی ری سائیکلنگ کا معاملہ طے پا گیا جس کے تحت یہ کام ایک حد تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

پنجاب قرآن بورڈ نے ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ قرآن کریم کے مقدس اوراق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ پر بھی کام کیا جائے اور اس کے لیے ایک بڑا مرکز لاہور میں تعمیر کیا جائے۔ اس فیصلہ پر لاہور کے علاقے اپرمال اسکیم میں ’’قرآن کمپلیکس‘‘ کے نام سے ایک وسیع اور خوبصورت عمارت تعمیر کی جا چکی ہے اور اس میں قرآن کریم کی تعلیمات پر ریسرچ اور فروغ کے مختلف پروگراموں کو ترتیب دینے کے علاوہ سیرت اکیڈمی کے عنوان سے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوہ و سنت کے مختلف پہلوؤں پر ریسرچ اور ان کے فروغ کا پروگرام بھی زیر تجویز ہے۔ یہ پروگرام اگر سنجیدگی کے ساتھ تکمیل کی طرف پیشرفت کر سکے تو بہت بڑی علمی اور دینی خدمت ہوگی۔ پنجاب قرآن بورڈ کی نئی تشکیل میں علامہ احمد علی قصوری اس کے چیئرمین ہیں جو فاضل عالم دین اور دانشور ہیں اور دینی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن ان کے چیئرمین بننے کے بعد سے بورڈ کے ارکان کو شکایت ہے کہ پنجاب قرآن بورڈ پہلے کی طرح متحرک نہیں رہا جبکہ مولانا احمد علی قصوری کو شکوہ ہے کہ انہیں بورڈ کے پروگراموں کو آگے بڑھانے اور متحرک کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل اور ضروری اسباب میسر نہیں ہیں۔

چند روز قبل پنجاب قرآن بورڈ کا اجلاس قرآن کمپلیکس میں علامہ احمد علی قصوری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں حکومت پنجاب کے سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور جناب طارق محمود پاشا بھی شریک تھے۔ راقم الحروف بھی اس اجلاس میں حاضر تھا، اس موقع پر ہلکے پھلکے انداز میں ان دونوں شکووں کا اظہار ہوا جس پر صوبائی سیکرٹری اوقاف نے وعدہ کیا کہ وہ بورڈ کے کاموں اور قرآن کمپلیکس کے پروگراموں کے لیے ضروری فنڈز فراہم کرنے میں ذاتی دلچسپی لیں گے اور نئے مالی سال میں بورڈ کے چیئرمین صاحب کی یہ شکایت باقی نہیں رہے گی۔

اس وقت قرآن کریم کے تقدس کا یہ مسئلہ تین مختلف فورموں پر زیربحث ہے۔ صوبائی اسمبلی میں قرآن بل لانے کی تیاری ہو رہی ہے بلکہ بتایا گیا ہے کہ بل وزارتِ قانون کی طرف سے تیار ہے صرف اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا باقی ہے۔ مگر اس سلسلہ میں بعض حلقوں کے کچھ تحفظات بھی ہیں مثلاً یہ کہ اس بل کی تیاری اور اس کی تفصیلات طے کرنے میں پنجاب قرآن بورڈ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جو خود حکومتِ پنجاب کا قائم کردہ ادارہ ہے۔ دوسری طرف پنجاب قرآن بورڈ اپنے فورم پر اس اہم کام کے لیے متحرک ہے اور تیسری طرف لاہور ہائی کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیربحث ہے۔

ہماری خواہش اور درخواست ہے کہ ان تینوں کاموں کو یکجا ہونا چاہیے۔ صوبائی وزارت قانون کو چاہیے کہ وہ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب قرآن بورڈ دونوں کو اعتماد میں لے کر ’’قرآن بل‘‘ کو آخری شکل دے اور اسے جلد از جلد منظور کروانے کا اہتمام کیا جائے۔ صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خان اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف میں سے کسی کو اس مسئلہ کی اہمیت اور باہمی مفاہمت کی ضرورت سے انکار نہیں ہوگا، بات صرف دلچسپی اور توجہ کی ہے، اگر ان دونوں حضرات کی توجہ اور دلچسپی کا تھوڑا سا رخ اس جانب ہو جائے تو یہ محنت بہت اچھے طریقے سے نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter