متحدہ مجلس عمل کی بحالی

   
تاریخ اشاعت: 
۲۳ مارچ ۲۰۱۸ء

متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے تحت مولانا فضل الرحمان کو صدر، جناب لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل اور مولانا شاہ اویس نورانی کو سیکرٹری اطلاعات منتخب کر کے مرکزی باڈی تشکیل دی گئی ہے۔ اور کم و بیش سبھی دینی مکاتب فکر کی اہم قیادتوں نے اگلا الیکشن متحدہ مجلس عمل کے فورم پر ایک پرچم، ایک منشور اور ایک نشان کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے جس پر ملک بھر کے سنجیدہ دینی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس عمل کے سابقہ دور اور اس کے بکھر جانے کے حوالہ سے کچھ تحفظات بھی مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آرہے ہیں جن میں سے بعض قابل توجہ بھی ہیں مگر سرِدست یہی بات قابل اطمینان ہے کہ مختلف دینی مکاتب فکر کی قیادتوں نے اس ضرورت کا احساس کر لیا ہے کہ انہیں پھر سے مل بیٹھنا چاہیے اور مشترکہ طور پر آج کے نازک حالات میں قوم کی راہنمائی اور قیادت کرنی چاہیے۔ اور ہمارے خیال میں یہ دوبارہ مل بیٹھنا اس امر کا غماز ہے کہ ماضی کی کوتاہیاں اور غلطیاں دینی قیادت کے سامنے ہیں اور انہیں باہمی اعتماد کے ساتھ دور کرنے کی کوئی نہ کوئی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے، اس لیے ہم اس موقع پر تحفظات کی طرف جانے کی بجائے ضروریات کے پہلو پر چند باتیں عرض کرنا چاہیں گے جو بہرحال دینی قیادت کے یکجا ہو جانے کا تقاضا کر رہی ہیں کیونکہ عالمی و قومی حالات کا رخ جس جانب دکھائی دے رہا ہے اس کے پیش نظر ان ضروریات کو مزید نظر انداز کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی، نظریاتی اور تہذیبی شناخت و امتیاز سے بہرصورت محروم کر دینے کی عالمی مہم اس وقت اپنے عروج پر ہے اور بین الاقوامی سیکولر اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر با اثر حلقے، ادارے اور لابیاں بھی اس کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ اس کا راستہ اس سے قبل بھی دینی قوتوں کے اتحاد اور رائے عامہ کی قوت نے روکا تھا اور اب بھی ان عالمی اور اندرونی سازشوں کی روک تھام کا یہی ایک مؤثر راستہ ہے کہ دینی جماعتیں متحد ہوں اور قوم کو مشترکہ دینی، فکری اور تہذیبی قیادت فراہم کریں۔ بحمد اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی مختلف دینی قیادتیں تمام تر باہمی اختلافات اور جداگانہ ترجیحات کے باوجود (۱) نفاذِ اسلام (۲) ناموسِ رسالتؐ (۳) اور عقیدۂ ختم نبوت کے لیے ضرورت کے ہر موقع پر متحد ہوئی ہیں اور جب بھی وہ ایک فورم پر جمع ہوئی ہیں سیکولر ایجنڈے کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس ایجنڈے پر تسلسل کے ساتھ نت نئے طریقوں سے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے کہ دینی قیادتوں کے مل بیٹھنے کی راہ روکی جائے اور اجتماعی دینی و قومی مسائل کے لیے الگ الگ مسلکی ڈگڈگیوں کی حوصلہ افزائی کا اہتمام کر کے رائے عامہ کے کسی ایک فورم پر جمع ہونے کے امکانات کو کم سے کم کر دیا جائے تاکہ اس قومی وحدت کا راستہ روکا جا سکے جو ہر ایسے موقع پر استعماری ایجنڈے اور سیکولر منصوبوں کی راہ میں سد سکندری بن جاتی ہے۔

چنانچہ اس صورتحال میں ہم اس کی ضرورت زیادہ محسوس کر رہے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کو ایک بار پھر پوری وحدت و قوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور استعماری قوتوں کو دوٹوک پیغام دینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دینی حلقوں اور مذہبی مکاتب فکر کو مختلف حوالوں سے باہم لڑانے اور ان کے درمیان کشیدگی و تصادم کا ہر سطح پر اہتمام کرنے کے باوجود نفاذ شریعت، ناموس رسالتؐ اور عقیدۂ ختم نبوت کے محاذوں پر بوقت ضرورت ان کے باہمی اتحاد کے امکانات کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ دراصل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز اور اسلام کی سدا بہار صداقت کا اظہار ہے کہ آپؐ کی امت ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات کو بھول کر اپنے محبوب پیغمبرؐ کے نام پر متحد ہو جاتی ہے اور ان کے باہمی تنازعات کو لادینیت کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

ہمیں اس بات پر بھی خوشی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل نو میں کسی مذہبی مکتب فکر کی مسلمہ قیادت پیچھے نہیں ہے اور یہ ایک بھرپور نمائندہ فورم ہے، البتہ بعض حلقوں اور قیادتوں کی صف اول میں عدم موجودگی کسی حد تک تشنگی کا تاثر قائم رکھے ہوئے ہے جس کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا خواہ اس کا عنوان سنی شیعہ ہو، دیوبندی بریلوی ہو یا حنفی اہلحدیث، اس حد تک آگے بڑھنا کسی طور قبول نہیں کیا جا سکتا جو ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کرنے اور ایک دوسرے کو طاقت کے زور سے دبانے کی نفسیات کو فروغ دے۔ ایسی صورتحال نہ اصولی اور اخلاقی طور پر درست ہے او رنہ ہی ملک کے اندرونی اور عالم اسلام کے بین الاقوامی حالات اس کے متحمل ہیں۔ قادیانیوں کے علاوہ پاکستانی معاشرہ کے باقی سب حلقوں کو ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے معاشرتی احترام کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ملکی و قومی معاملات میں ایک دوسرے کی شراکت کو قبول کرنا ہوگا۔ قادیانیوں کی استثنا بھی صرف اس لیے ہے کہ وہ اپنے بارے میں قوم اور دستور کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، ورنہ اگر وہ دستور پاکستان کے تحت اپنا سوشل اسٹیٹس قبول کر لیں تو انہیں بھی قومی دائرے کی ایک اکائی کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔

بہرحال ان جذبات و احساسات کے ساتھ ہم متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ہماری دینی قیادتوں کو خلوص و ایثار کے ساتھ آگے بڑھنے کی توفیق دیں اور ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی شناخت کے تحفظ، مسلم تہذیب و ثقافت کی بقا، نظامِ مصطفٰیؐ کے نفاذ، تحفظ عقیدۂ ختم نبوت اور تحفظِ و ناموس رسالتؐ کے لیے قوم کی صحیح سمت مؤثر راہنمائی کے مواقع عطا فرمائیں اور جدوجہد کو قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter