مسیحی دنیا میں قدیم و جدید کی کشمکش

   
تاریخ : 
نومبر ۲۰۱۴ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۴ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’ویٹیکن سٹی (اے پی اے) دو ہفتوں تک جاری رہنے والا کیتھولک مسیحیوں کے سینئر مذہبی اکابرین کا خصوصی اجلاس طلاق اور ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ نہیں دے پایا، اس صورتحال کو پوپ فرانسِس کے لیے دھچکا قرار دیا گیا ہے۔ ویٹیکن سٹی میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والی کیتھولک مشائخ سالانہ کانفرنس (SYNOD ) کسی بڑے فیصلے کے بغیر ہی ختم ہو گئی ہے، اس کانفرنس میں پوپ فرانسِس (پاپائے روم) کی تمنا تھی کہ کارڈینلز (مذہبی راہنما) طلاق اور ہم جنس پرستی کے بارے میں قدرے نرم رویہ اپنائیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کسی بھی بڑے فیصلے کے لیے کارڈینلز کی کل موجود تعداد کی دو تہائی درکار ہوتی ہے، ختم ہونے والے اجلاس میں دنیا بھر سے ۱۸۳ کارڈینلز شریک تھے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ صورتحال پوپ فرانسِس کے لیے موافق خیال نہیں کی جا سکتی، ویٹی کن کے ترجمان فیڈریکو لومبارڈی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں لبرل اور قدامت پسند کارڈینلز کے خدشات اور تحفظات کو شامل کیا گیا ہے۔‘‘

یہ خبر مسیحی دنیا میں قدیم اور جدید کے درمیان اس کشمکش کی موجودہ صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے جاری ہے اور جس میں لبرل ازم کے عنوان سے مروجہ مغربی ثقافت کے خلاف مذہبی رجحانات کو کم کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ عریانیت، اباحیت مطلقہ، ہم جنس پرستی اور زنا کے فروغ پر مشتمل مغربی ثقافت اپنے ساتھ مذہبی رجحانات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے صدیوں سے تگ و دو میں مصروف ہے اور مسیحی عوام کی اکثریت دنیا کے ہر حصہ میں اس فریب کا شکار ہو چکی ہے، لیکن کچھ معاملات پر مسیحیوں کی قدامت پسند مذہبی قیادت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے اور لبرل ازم کے رجحانات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جن میں خاص طور پر ہم جنس پرستی، طلاق اور اسقاط حمل کے مسائل قابل ذکر ہیں۔ جدید ثقافت کا مطالبہ ہے کہ ہم جنس پرستی کو مذہبی طور پر حرام اور ناجائز قرار دینے کی بجائے اسے ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اسقاط حمل کو بھی عورت کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس کی غیر مشروط اجازت دی جائے، لیکن بہت سے مسیحی مذہبی راہنما اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں بلکہ کھل کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

موجودہ پاپائے روم پوپ فرانسِس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسے معاملات میں لبرل ازم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور دوسرے مسیحی مذہبی راہنماؤں کو بھی نرم رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ کانفرنس میں یہ مسئلہ اسی تناظر میں پیش کیا گیا تھا لیکن خبر کے مطابق پوپ فرانسِس کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف ایک ذاتی مشاہدہ کا حوالہ بھی دینا چاہتا ہے کہ چند سال قبل جب کینیڈا کی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستوں کی باہمی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تو ان دنوں میں امریکہ کے شہر برمنگھم (الاباما) میں تھا، ہمارے گکھڑ کے ایک دوست افتخار رانا وہاں عرصہ سے مقیم ہیں، میں ان کے ساتھ ایک چرچ میں گیا اور وہاں کے پادری صاحب سے جن کا نام غالباً کیمبل تھا، اس مسئلہ پر بات کی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ اس کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے، تو وہ انسانی حقوق کے مروجہ فلسفہ کا حوالہ دینے لگے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں انسانی حقوق کے فلسفہ کے حوالہ سے نہیں بلکہ ایک مذہبی راہنما کے طور پر ان کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے گفتگو کا رُخ موڑنے کے لیے امریکی دستور کا تذکرہ کیا تو میں نے عرض کیا کہ امریکی دستور میرے سامنے بھی ہے لیکن میں ان سے بائبل کے نمائندے کے طور پر پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم جنس پرستی کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے، بائبل کا موقف کیا ہے اور کینیڈا کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر چرچ کا بحیثیتِ چرچ کے رد عمل کیا ہے؟ وہ اس مسئلہ پر کوئی بات واضح طور پر نہیں کہنا چاہتے تھے لیکن میرے بار بار پوچھنے پر انہیں بادل نخواستہ یہ کہنا پڑا کہ بائبل اس عمل کو جائز قرار نہیں دیتی اور چرچ اس کو اچھا نہیں سمجھتا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مسیحیت کی مذہبی قیادت اس حوالہ سے کس قدر دباؤ میں ہے اور تذبذب کا شکار ہے؟ لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسیحی مذہبی دائروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی روایات، اقدار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یہ صورتحال ہمارے ہاں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مذہب کے نام پر قرآنی تعلیمات کے ٹائٹل کے ساتھ ایسے افراد کو سامنے لایا جا رہا ہے جو مغربی ثقافت اور خاص طور پر اس کے لا مذہبی رجحانات و اقدار کو کسی نہ کسی طرح مذہبی جواز کی کوئی سند فراہم کر دیں، لیکن عالمِ اسلام میں بحمد اللہ تعالیٰ مجموعی طور پر اس صورتحال کو قبول نہیں کیا جا رہا، قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کی موجودگی اور ان تعلیمات کے حامل اہل دین کی جدوجہد کا تسلسل ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہا، جبکہ حلال و حرام کا وہ مضبوط تصور ابھی تک لوگوں کے ذہنوں بلکہ عمل میں بھی باقی ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت اور فقہاء اسلام کی تشریحات و توضیحات پر ہے۔ ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے دینی اداروں اور مراکز کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter