سودی نظام کے بارے میں عدالتی فیصلہ اور دینی جماعتوں کی سرگرمیاں

   
تاریخ : 
۱۴ مئی ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلہ کے حوالے سے جوں جوں آگاہی بڑھ رہی ہے دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ دیگر طبقات بالخصوص ماہرینِ معیشت اور تاجر برادری میں بھی بیداری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور دوسری جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریکِ انسداد سود اور پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں تسلسل کی فضا بن رہی ہے۔

۱۰ مئی کو جماعت اسلامی کی دعوت پر منصورہ میں دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور ماہرینِ معیشت کا بھرپور مشترکہ اجلاس جناب سراج الحق کی صدارت میں ہوا جس میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کا پرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے لیے منظم جدوجہد کا طریق کار طے کیا گیا۔ گزشتہ ماہ اپریل کے دوران متحدہ علماء کونسل کے زیر اہتمام آسٹریلیا مسجد لاہور میں مختلف دینی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا مشترکہ اجلاس مولانا عبد الرؤف ملک کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں وفاقی شرعی عدالت کے متوقع فیصلے کے حوالے سے حکمتِ عملی پر غور کیا گیا تھا۔ جبکہ پاکستان شریعت کونسل کی دعوت پر ۷ مئی کو گوجرانوالہ، ۸ مئی کو سیالکوٹ، ۱۱ مئی کو اسلام آباد اور ۱۲ مئی کو مری میں علماء کرام کے اجلاس ہوئے جن میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کو مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور راقم الحروف کو ان اجلاسوں میں شرکاء کو صورتحال پر بریفنگ دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۲ مئی کو مری میں پاکستان شریعت کونسل کےسالانہ مرکزی مشاورتی اجلاس کی رپورٹ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرؤف محمدی کے قلم سے درج ذیل ہے۔

’’اسلام آباد (۱۳ مئی ۲۰۲۲ء) وفاقی شرعی عدالت کا سودی نظام کے خلاف فیصلہ خوش آئند ہے، اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کی غلطی کی تو ملک گیر احتجاجی مہم چلائیں گے۔ فیصلے کے حق میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیمینارز کا انعقاد کریں گے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک بڑا کنونشن منعقد کیا جائے گا۔ گھریلو تشدد بل، وقف املاک ایکٹ، جبری قبولِ اسلام اور اس جیسے دیگر قوانین کے خلاف پاکستان شریعت کونسل نے بھرپور اور توانا آواز بلند کی۔ افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم بھی مؤثر رہی، انتخابی اور گروہی سیاست سے الگ رہتے ہوئے تمام طبقات اور مکاتبِ فکر کو ساتھ ملا کر فکری بیداری، لابنگ اور شعور و آگہی پیدا کرنے کی جدوجہد آئندہ بھی جاری رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی رہنماؤں مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد القیوم حقانی اور دیگر حضرات نے مدرسہ عربیہ اسلامیہ (سنی بینک، مری) میں کونسل کی مرکزی مجلسِ شوری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں کونسل کی گزشتہ سال کی کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی جبکہ آئندہ سال کے اہداف متعین کئے گئے۔ شریعت کونسل کے قائدین نے ان سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مثبت معاشرتی اقدار کے فروغ، قومی خودمختاری کی پاسداری، ملک میں آئین کی اسلامی شقوں کے عملی نفاذ، مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ، اور مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوششوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ انہوں نے سودی نظامِ معیشت کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر اس فیصلے کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے تو بھر پور احتجاج کریں گے۔ اور اگر کوئی بھی مالیاتی ادارہ فیصلے کے خلاف اپیل میں گیا تو ملک بھر میں اس کے بائیکاٹ کی مہم چلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی منافرت، افراتفری، طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کا موجودہ ماحول کسی المیے سے کم نہیں، سیاسی قائدین کو اپنے اقوال و افعال سے نسل نو کی اخلاقی تربیت کا سامان کرنا چاہیے۔

شریعت کونسل کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کی حکومت کو فوری تسلیم کیا جائے اور ان کی معاشی و مالی معاونت کر کے وہاں کسی نئے انسانی المیہ کو جنم لینے سے روکا جائے۔

اجلاس میں شریعت کونسل کی قانونی ٹیم کے رکن مولانا ذوالفقار گل ایڈووکیٹ نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں مری کے ممتاز عالم دین مولانا قاری سعید عباسی اور وفاق المدارس کے مرکزی ترجمان مولانا عبد القدوس محمدی نے خصوصی طور پر شرکت کی، جبکہ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا عبد الرؤف محمدی، مولانا ڈاکٹر حافظ محمد سلیم، مولانا ثناء اللہ غالب، مولانا قاسم عباسی، مولانا عبد الحفیظ محمدی، مولانا حافظ علی محی الدین، قاری محمد عثمان رمضان، مفتی جعفر طیار، سعید احمد اعوان، حافظ منیر احمد، صاحبزادہ نصر الدین خان عمر، مولانا غلام رسول ناصر، مولانا محمد عبداللہ عباسی، مولانا حق نواز عباسی، مولانا محمد حسان اور دیگر علماء کرام بھی شریک ہوئے۔‘‘

اس دوران جو اہم امور سامنے آئے ان میں سے چند ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

  • وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ دو حوالوں سے بہت جامع اور بھرپور ہے۔ ایک تو یہ کہ غیر سودی نظام پر عمل کے حوالہ سے جو شکوک و شبہات اور سوالات گزشتہ فیصلوں کے خلاف اپیل میں اٹھائے گئے تھے ان سب کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر سب اشکالات کا تشفی بخش جواب دیا گیا ہے۔
  • دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ صرف بینکاری کے نظام کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے نہیں بلکہ اس میں ملکی نظام معیشت کے تمام شعبوں کو پانچ سال تک عملی طور پر سود سے پاک کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ جن مالیاتی اداروں نے غیر سودی نظام کے ناقابل عمل ہونے کے سوال پر سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی تھیں خود انہوں نے اپنے بینکوں میں غیر سودی بینکاری کے کاؤنٹر کھول رکھے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ پوری طرح کامیاب جا رہے ہیں۔ اس پر ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ خود اپنے اداروں میں غیر سودی بینکاری کے کامیاب ہونے کا دعوٰی کر رہے ہیں تو ملکی معیشت کے بارے میں ان کے اس دعوے میں کیا وزن رہ جاتا ہے کہ یہ قابل عمل نہیں ہے تو ان اپیل کنندگان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

۱۴ مئی کو جامعہ صدیق اکبرؓ ٹنڈو اللہ یار کی دعوت پر ان کے سالانہ جلسہ میں شریک ہونے کے بعد میں کراچی اور حیدر آباد کے سرکردہ بزرگوں سے تحریک انسداد سود کے بارے میں گفتگو کے لیے دو تین دن رکوں گا اور واپسی پر قارئین کی خدمت میں پھر اس حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کر سکوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter