مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں عید الاضحٰی کی تعطیلات شروع ہوئیں تو عید سے قبل دو تین روز کی گنجائش تھی اور ۱۷ جنوری کو فیصل آباد اور گوجرہ کے دو دینی اداروں کی تقریبات میں شرکت کی دعوت بھی تھی اس لیے میں نے اس سے اگلا روز شورکوٹ اور کبیر والا میں اپنے مہربان دوستوں مولانا بشیر احمد خاکیؒ اور مولانا محمد انورؒ کی تعزیت کے لیے حاضری کا پروگرام بنا لیا۔ مولانا بشیر احمد خاکیؒ جامعہ عثمانیہ شورکوٹ کے بانی اور مہتمم تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام کے سرگرم رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کا تعلق خانیوال کے علاقہ قتال پور سے تھا۔ دارالعلوم کبیر والا میں تعلیم حاصل کی، جامعہ خالد بن ولیدؒ وہاڑی کے بانی مولانا ظفر احمد قاسم ان کے رفیق تعلیم تھے۔ مولانا ظفر احمد قاسم مولانا بشیر احمد خاکی کے برادر نسبتی ہیں اور زندگی بھر ان دونوں کی رفاقت بھی رہی ہے۔ ان دونوں بھائیوں نے جاگیرداری کے جبر میں بسنے والے اس علاقہ میں عام مسلمانوں میں دینی و سیاسی شعور پیدا کرنے اور اسے اجاگر کرنے میں جو مسلسل محنت کی اس کی اہمیت کو وہی لوگ صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں جو اس علاقہ کے نصف صدی قبل کے حالات سے واقف ہیں اور جو جاگیرداروں کے اس جبر و استبداد سے آگاہی رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ خاص طور پر ضلع جھنگ میں عوام کو جاگیرداروں کی غلامی سے نجات دلانے میں مولانا محمد ذاکرؒ، مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی، مولانا حق نواز جھنگویؒ اور مولانا بشیر احمد خاکیؒ کے کردار کو ضلع جھنگ کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مولانا بشیر احمد خاکی ۱۹۶۷ء میں شورکوٹ کی ایک مسجد میں امام و خطیب کی حیثیت سے آئے اور ۱۹۶۹ء میں جامعہ عثمانیہ کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی جو آج علاقہ کے دینی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے دینی تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے عقائد کی اصلاح اور انہیں جاگیرداروں کے جبر سے نجات دلانے کو بھی اپنا مشن بنا لیا۔ ایک غریب اور مسافر مولوی جب سیاست کے میدان میں اترا اور الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ مولوی الیکشن نہ جیت سکا تو بھی علاقے کی انتخابی سیاست میں اتنی اہمیت ضرور حاصل کر لے گا کہ الیکشن لڑنے والے میدان میں اترنے سے قبل اس کی پیشانی کی سلوٹوں کا جائزہ لینا ضروری سمجھا کریں گے اور شورکوٹ شہر کی بلدیاتی سیاست میں کسی بھی گروپ کی انتخابی جیت کے لیے اس کی حمایت ضروری قرار پائے گی۔ مولانا ظفر احمد قاسم کی روایت ہے کہ جب مولانا بشیر احمد خاکیؒ کو حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علمائے اسلام کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنے کا حکم دیا اور انہیں پاکستان قومی اتحاد کا ٹکٹ دلوایا تو علاقے کے ایک بہت بڑے جاگیردار اور انتخابی سیاست کے پرانے کھلاڑی نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ آپ نے ایک غریب مولوی کو ٹکٹ دے دیا ہے وہ کیا الیکشن لڑے گا؟ آپ ٹکٹ کسی پرانے سیاستدان کو دیں جو جیت بھی سکے تو مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ مولوی ہار جائے گا تو کوئی بات نہیں لیکن اس سیٹ پر ہمارے ٹکٹ پر الیکشن ہمارا کارکن ہی لڑے گا۔
مولانا بشیر احمد خاکیؒ سادگی، قناعت اور جفاکشی میں پرانے علماء کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے تھے اور آج کے علماء کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جامعہ عثمانیہ کے سالانہ جلسے کے لیے اکثر ان کا اصرار ہوتا تھا کہ میں ان کی مرضی کے مطابق انہیں وقت دوں جو اکثر جمعہ کے پروگرام کے لیے ہوتا۔ مگر میری مجبوری یا کمزوری یہ ہے کہ ملک کی حدود میں ہوں تو جمعہ کے موقع پر گوجرانوالہ سے غیر حاضری سے حتی الوسع گریز کرتا ہوں۔ اس لیے ہر بار معذرت کرنا پڑتی مگر کسی نشست میں تھوڑی دیر کے لیے حاضری کی کوئی صورت نکال لیتا۔ گزشتہ سال کے جلسہ میں اس کی بھی صورت نہیں بن رہی تھی مگر ان کا اصرار اس حد تک بڑھا کہ مجھے اپنے معمول کے خلاف خصوصی انتظام کے تحت تھوڑی دیر کے لیے حاضری دینا پڑی، ان کے اس شدید اصرار پر اس وقت تعجب بھی ہوا مگر اب اس کی وجہ سمجھ آرہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی طور پر تھا کہ اس موقع پر ہماری ملاقات زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔
۱۸ جنوری ۲۰۰۵ء کو جامعہ عثمانیہ میں حاضری ہوئی، ان کے فرزندوں مولانا زاہد، مولانا محمد عابد، مولانا محمد حامد کے علاوہ دیگر حضرات سے ملاقات ہوئی اور قبر پر بھی حاضری دی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان کے بیٹے اپنے باپ کے مشن اور پروگرام پر چل رہے ہیں اور دینی و مسلکی خدمات میں مسلسل مصروف ہیں۔