حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات ۔ ہم سب کا مشترکہ صدمہ

   
۱۵ مئی ۲۰۰۹ء

والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی وفات پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا بھر سے فون آرہے ہیں۔ ہم بھائیوں میں سے جس کے فون پر کسی کا رابطہ ہو رہا ہے وہ ہم سب خاندان سے تعزیت کر رہا ہے۔ جن کو موقع ملتا ہے وہ زحمت فرما کر تشریف لاتے ہیں اور ہمارے ساتھ غم و صدمہ کا اظہار کرتے ہیں۔ میں اپنے سب بھائیوں اور بہنوں اور دیگر اہل خاندان کی طرف سے ان تمام دوستوں، احباب، بزرگوں، اور ہمدردوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی بھی ذریعہ سے ہمارے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور حضرت والد محترمؒ کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ سب کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر جزیل دیں، آمین۔

اس دوران خود میرا بھی ایک جگہ تعزیت کے لیے جانا ہوا کہ حضرت والد محترم کے جنازے میں شرکت کے لیے چکوال سے آنے والے علمائے کرام کا ایک وفد کار کے ذریعہ آرہا تھا کہ دینہ کے قریب کار کا ایک پہیہ کھل گیا جس کی وجہ سے کار الٹ گئی اور اس میں سوار دو نوجوان علماء مولانا محمد الطاف منہاس اور مولانا عبد القدیر اکرم شہید ہوگئے۔ جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی نے اس حادثہ فاجعہ کا اعلان کیا تو ہمارا صدمہ اور بڑھ گیا۔ پیر صاحب محترم جنازے کے فورًا بعد واپسی کےلیے روانہ ہوگئے، ہم میں سے کسی کا جانا فوری طور پر ممکن نہیں تھا اس لیے دونوں شہیدوں میں سے کسی کے جنازہ میں شرکت نہ کر سکے۔ البتہ ا یک روز کے بعد برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر سلمہ مجھ سے مشورہ کر کے تعزیت کے لیے ان کے گاؤں گئے اور طے پایا کہ چند روز کے بعد میں بھی وہاں حاضری دوں گا۔ مجھے فوری طور پر جہلم بھی جانا تھا کہ ہماری چھوٹی ہمشیرہ جنازے کے دن تھوڑی دیر کے لیے گکھڑ آئی تھیں اور والد محترم کی آخری زیارت کر کے اسی وقت واپس چلی گئی تھیں اس لیے کہ ان کے خاوند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ کا دو ماہ قبل انتقال ہوگیا تھا اور وہ ان دنوں عدت میں ہیں۔ اس روز رش کی وجہ سے ان سے ملاقات نہیں کر سکا تھا، مجھے بے پناہ ہجوم کے باعث گھر کی خواتین سے تعزیت کا موقع دوسرے روز ملا۔

۱۱ مئی کو مدرسہ نصرۃ العلوم میں اسباق سے فارغ ہو کر جہلم پہنچا اور ہمشیرہ سے ملاقات و تعزیت کی۔ پھر قاری ابوبکر صدیق سلمہ کے ہمراہ چکوال کی طرف روانہ ہوگیا ۔ راستہ میں حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ، ان کے والد محترم حضرت حافظ محمد شادمانؒ اور فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ کی قبروں پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس کے بعد ہم چکوال کے قریب چک ملوک پہنچے جہاں کے نوجوان عالم دین مولانا محمد الطاف منہاس ان دونوں شہداء میں سے ایک ہیں جن کی تعزیت کے لیے ہم جا رہے تھے۔ مولانا محمد الطاف منہاس کی عمر ۲۷ برس بتائی گئی، انہوں نے قرآن کریم جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم میں حفظ کیا اور درس نظامی کی تعلیم و تکمیل جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کی۔ صالح نوجوان تھے، اچھے مقرر اور شاعر بھی تھے، سپاہ صحابہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی قبر پر نصب کتبہ میں ’’مرشد جھنگوی‘‘ کا جملہ ان کی عقیدت و جذبات کا مظہر ہے۔ ان کے برادران سے تعزیت کی۔ ہم ان کے مکان کی بیٹھک میں ان کے بھائیوں اور دیگر اہل خاندان سے تعزیت کر رہے تھے کہ سامنے مسجد کی دیوار پر چسپاں ایک اشتہار میری توجہ بار بار اپنی طرف مبذول کرا رہا تھا جو ایک محفل حمد و نعت کا اشتہار ہے۔ یہ محفل ۱۵ مئی کو قریبی بستی ڈھڈیال میں ہونے والی ہے اور اس کے مہمانوں کی فہرست میں مولانا الطاف منہاس کا نام نمایاں طور پر درج ہے۔ میں سوچ میں گم تھا کہ ہم لوگ بڑی لمبی تاریخوں کے پروگرام دے دیتے ہیں، ڈائریوں پر نوٹ کر لیتے ہیں اور اشتہار بھی چھپ جاتے ہیں مگر کسی کو کیا خبر کہ وہ کون سے پروگرام میں شریک ہو سکے گا؟ مولانا محمد الطاف منہاس کی قبر پر بھی ہم نے حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔

اس کے بعد ہم چکوال پہنچے اور دارالعلوم حنفیہ کے اساتذہ اور منتظمین سے تعزیت کی کہ مولانا عبد القدیر اکرم دارالعلوم حنفیہ کے استاد تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا عبد الکریم ندیم صاحب بھی تشریف لے آئے اور ہم نے اکٹھے تعزیت و دعا کی۔ نماز عصر کا وقت تھا، دارالعلوم حنفیہ کی جامع مسجد میں ہم نے نماز جماعت کے ساتھ ادا کی تو مولانا پیر عبد القدوس نقشبندی نے کہا کہ نمازیوں سے بھی اجتماعی تعزیت ہو جائے تو بہتر ہوگا۔ میں نے نماز کے بعد نمازیوں س ےخطاب کر کے تعزیت کے چند جملے عرض کیے اور دعا کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہوگئے۔ آگے ہم نے مولانا عبد القدیر اکرم شہید کے گاؤں ’’بھرپور‘‘ جانا تھا جو تلہ گنگ سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور مولانا مرحوم کا تعلق اس گاؤں سے تھا، ان کی عمر بھی ۳۰ برس سے کم بتائی جاتی ہے۔ باذوق نوجوان اور متقی عالم دین تھے۔ دارالعلوم حنفیہ چکوال میں درس نظامی کے استاد تھے، ان کے رفقاء اور دوستوں نے ان کے دینی ذوق اور خدمات کا جس انداز سے تذکرہ کیا وہ یقیناً قابل رشک ہے۔ ان کے بھائیوں اور دیگر اہل خانہ سے تعزیت کی، اس تعزیتی محفل میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ میں نے کسی جگہ حضرت امام غزالیؒ کے حوالہ سے پڑھا تھا کہ دنیا میں ہر طرف نظر آنے والی چہل پہل اور زندگی کی رونقوں کی ایک وجہ اور راز یہ بھی ہے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ اس نے کس وقت اور کس جگہ اس دنیا کو چھوڑ دینا ہے۔ کیونکہ اگر کسی شخص کو علم ہو جائے کہ میری زندگی کتنی ہے تو وہ اپنے باقی ماندہ دنوں اور مہینوں کو گننے میں ہی مصروف رہے اور زندگی کی رونقیں ماند پڑ جائیں۔ میں نے گزارش کی کہ جانے والے کے بارے میں ہمارے جذبات او رتاثرات یہ ہوتے ہیں کہ وہ بے وقت چلا گیا، ابھی اس کی ضرورت تھی ۔ مگر ہر شخص اپنے مقررہ وقت پر ہی دنیا سے جاتا ہے اس لیے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی روح ڈالے جانے سے پہلے ہی فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لکھ دیتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہوگی، اس کا رزق کتنا ہوگا، اور یہ نیک یا گناہ گار کونسے کھاتے میں شمار ہوگا۔

بھرپور گاؤں سے فارغ ہو کر ہم تلہ گنگ پہنچے اور حافظ محمد عمار یاسر صاحب سے تعزیت کی جن کے والد محترم کا ایک ماہ قبل انتقال ہوگیا تھا۔ حافظ صاحب ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، رائے ونڈ میں تعلیم حاصل کی ہے اور تلہ گنگ میں تبلیغی مرکز کی شاخ کے طور پر ایک دینی مدرسہ کے انتظامات میں شریک ہیں۔ انہوں نے مغرب کے بعد تلہ گنگ کے سرکردہ علمائے کرام کو جمع کر رکھا تھا، ہم نے سب سے تعزیت کی اور سب نے ہم سے تعزیت کی۔ حضرت والد محترم کے حوالہ سے جس دوست سے بھی بات ہوتی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے۔ آپ ہم سے تعزیت کر رہے ہیں اور ہم آپ سے تعزیت کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ تمام اہل دین کا صدمہ ہے، تمام اہل علم کا صدمہ ہے، اور پوری امت کا عمومی صدمہ ہے۔

شام کا کھانا ہم نے تلہ گنگ کے علمائے کرام کے ہمراہ حافظ عمار یاسر صاحب کے گھر کھایا اور اس کے بعد موٹروے کے راستے سے سفر کر کے رات ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔ اس دوران تعزیت کے لیے گوجرانوالہ اور گکھڑ دونوں جگہ احباب کی آمد جاری ہے جن میں حضرت مولانا فضل الرحمان، مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا حافظ حسین احمد، جناب قاضی حسین احمد، جناب لیاقت بلوچ، چودھری پرویز الٰہی، خان غلام دستگیر خان، حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی، مولانا اشرف علی، چودھری محمد اشرف وڑائچ، مولانا قاضی محمد یونس انور، مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز اعوان اور ان کے رفقاء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ سب بزرگ اور احباب کا تذکرہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی سب کا فردًا فردًا شکریہ ادا ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں اپنی طرف سے اور تمام اہل خاندان کی طرف سے سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور حضرت والد محترم رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter