مدرسہ انوار العلوم کے طلبہ کی گرفتاری

   
تاریخ : 
۱۶ ستمبر ۲۰۱۳ء

شہر کے سرکردہ علماء کرام کا ایک ہنگامی اجلاس آج جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے دفتر میں راقم الحروف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ پر پولیس کے چھاپے اور بائیس ۲۲ طلبہ کی گرفتاری سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے استاذ الحدیث مولانا عبد القدوس نے اجلاس میں بتایا کہ وہ صبح بخاری شریف کا سبق پڑھا ہے تھے کہ پونے آٹھ بجے کے لگ بھگ پولیس کی بھاری نفری نے مدرسہ و مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور گوجرانوالہ کے سینئر پولیس حکام نے انہیں چٹ بھیج کر کہا کہ چند منٹ کے لیے سبق موقوف کر دیں، ایک ضروری بات کرنی ہے۔ اس پر انہوں نے ان سے کہا کہ وہ آگے تشریف لائیں، پولیس حکام نے کہا کہ پچھلے دنوں چلاس میں شہید ہونے والے ایس پی ہلال خان شہیدؒ اور ان کے دیگر رفقاء کے قتل کے کیس کی تفتیش کے سلسلہ میں انہیں مدرسہ انوار العلوم کے کچھ طلبہ پر شک ہے اس لیے چلاس اور گلگت سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو وہ تفتیش کے لیے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پر گلگت وغیرہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو الگ کر دیا گیا اور وہ اس علاقہ کے ۲۲ طلبہ کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے کہ ان میں سے جو طلبہ ملوث پائے گئے انہیں متعلقہ پولیس کے حوالہ کر دیا جائے گا اور جو بے گناہ ہوئے انہیں مدرسہ میں واپس پہنچا دیا جائے گا۔

اس کے بعد چند لمحوں میں مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہونا شروع ہوگئی کہ مدرسہ انوار العلوم سے اکیس غیر ملکیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، حالانکہ یہ سب کے سب طلبہ پاکستانی ہیں، شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کے پاس شناختی کارڈ موجود ہیں جو انہوں نے پولیس کی تحویل میں دے دیے ہیں، جبکہ مدرسہ انوار العلوم میں شناختی کارڈ کے بغیر کسی طالب علم کا داخلہ نہیں ہوتا، مگر میڈیا نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیا ہے۔ اجلاس کے دوران وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سے رابطہ قائم کر کے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا گیا اور اسی دوران جمعیۃ اہل سنت کے سیکرٹری جنرل چودھری بابر رضوان باجوہ نے ایس۔پی سٹی سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ہلال خان شہیدؒ کے کیس کے سلسلہ میں مدرسہ انوار العلوم کے بائیس طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں اگر کوئی ملوث پایا گیا تو اسے گلگت پولیس کے حوالہ کر دیا جائے گا اور باقی طلبہ کو کل تک رہا کر دیا جائے گا۔ اس پر اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اس سلسلہ میں دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کا ایک مشترکہ اجلاس کل ۱۶ ستمبر پیر کو ظہر کے بعد مرکزی جامع مسجد میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوگا جس میں وفاق کی مرکزی قیادت کی ہدایات کی روشنی میں آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم مولانا داؤد خان کی طرف سے گرفتار شدہ بائیس طلبہ کے ناموں کی فہرست جاری کی گئی ہے جو درج ذیل ہے۔

(۱) ارشاد بن بدر خان۔ بشام (۲) دلبر خان بن کشکر۔ دیامر (۳) شیر افضل بن مواد خان۔ دیامر (۴) سلطان بن بک چک۔ دیامر (۵) عبد الغیاث بن وھاب شاہ۔ دیامر (۶) ذبیح اللہ بن کاؤس۔ دیامر (۷) صلاح الدین بن عبد الودود۔ دیامر (۸) عطاء الرحمن بن رضوان اللہ۔ دیامر (۹) عبد الحمید بن عامر شاہ۔ کوہستان (۱۰) عبد الحق بن جمعہ دین۔ کوہستان (۱۱) حسن شاہ بن محبت خان۔ کوہستان (۱۴) سید میون بن جمدر۔ چلاس (۱۵) شیرزادہ۔ دیامر (۱۶) گل زرین بن سلم گہر۔ چلاس (۱۷) محمد ریاض بن محمد نواز۔ چلاس (۱۸) عبد الرحیم بن فقیر محمد۔ چلاس (۱۹) عبد الخالق بن نور خان۔ چلاس (۲۰) عبد الہادی بن محمد مصطفی۔ چلاس (۲۱) مستقیم بن صنویر۔ چلاس (۲۲) برکت اللہ بن ابراہیم۔ چلاس۔

راقم الحروف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس پی ہلال خان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ہم سب کے لیے باعث رنج ہے، وہ ایک اچھے اور فرض شناس پولیس آفیسر تھے، اس لیے ہم اس کیس میں مکمل تعاون کریں گے، لیکن اس حوالہ سے مدرسہ انوارالعلوم پر پولیس کی ریڈ اور بائیس طلبہ کی گرفتاری پر ہمارے تحفظات ہیں جن کے بارے میں ہم کل کے اجلاس کے بعد اپنا موقف واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔جمعیۃ اہل السنۃ کے صدر حاجی عثمان عمر ہاشمی اور وفاق المدارس کے مسؤل مولانا مفتی نعیم اللہ اور مولانا قاری گلزار احمد قاسمی نے دینی مدارس کے اساتذہ اور منتظمین سے کہا ہے کہ وہ اجلاس میں بروقت شریک ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter