بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ستمبر کا مہینہ شروع ہو گیا ہے، اس مہینے میں عام طور پر ملک کے دینی ، سیاسی اور سماجی حلقے دو عظیم واقعات کی یاد تازہ کرتے ہیں جس پر اجتماعات اور پروگرامز ہوتے ہیں اور اخبارات میں مضامین چھپتے ہیں، ایک ۶ ستمبر کا یومِ دفاع ِ پاکستان اور دوسرا ۷ ستمبر کا یومِ ختمِ نبوت، یہ اجتماعات مہینے کے آخر تک چلتے رہیں گے۔
یومِ دفاع
۶ ستمبر کو قومی سطح پر یوم دفاع منایا جاتا ہے کہ ۱۹۶۵ء میں اس دن بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور لاہور اور سیالکوٹ وغیرہ کے مختلف محاذوں پر پیش قدمی کی تھی اور پروگرام یہ تھا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن ہماری پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اور پاکستانی قوم نے بے مثال وحدت کے ذریعے مقابلہ کیا اور بھارت کو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمارے فوج کے نوجوان سپاہی اور ہمارے مجاہد سینوں پہ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے گھس گئے تھے اور چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی یلغار روک دی تھی۔ اس موقع پر ایک تو ہمارے فوجی جوانوں نے شجاعت و بہادری اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کا دفاع کیا اور دوسرا پوری قوم نے وحدت کا جو منظر پیش کیا ، وہ ماحول پھر کبھی نظر نہیں آیا، اللہ تعالیٰ وطن اور دین کے لیے ہمیں وحدت کا ماحول پھر نصیب فرمائیں۔
اس موقع پر ہمارا بھی کچھ حصہ تھا۔ گوجرانوالہ میں شہری رضاکاروں کی ایک سول ڈیفنس کی تنظیم تھی جس میں گوجرانوالہ کے علماء کا گروپ شریک تھا، حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ ہمارے گروپ کمانڈر تھے۔ یہ علماء کرام ملک کے دفاع اور اپنی فوج کی حمایت میں دو تین کام کیا کرتے تھے۔ ایک تو خطابات کے ذریعے کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں جذبہ اور حوصلہ قائم رہے۔ دوسرا پریس اور مختلف تقریبات کے ذریعے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے کہ ہم نے ملک کا دفاع کرنا ہے ۔اور تیسرے نمبر پر باقاعدہ وردی پہن کر ملک کے مختلف حصوں میں پہرے دیے ، میں نے خود پلوں پر راتوں کو پہرہ دیا ۔ یہ گروپ شہر کے علماء اور خطیبوں کا تھا۔ گکھڑ میں صفدر باجوہ میرے اچھے دوست تھے، ہم اکٹھے کرکٹ کھیلا کرتے تھے، جب ریلوے سٹیشن پر بمباری ہوئی تو باجوہ اس بمباری میں شہید ہو گئے۔ وہ اس علاقہ کے پہلے شہید تھے ، ہم ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ ہمارے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ صفدر باجوہ ان کے چچا تھے۔ اس کے علاوہ میں ۱۹۶۵ء کی جنگ میں روزنامہ وفاق لاہور کا گکھڑ میں نامہ نگار تھا اور بطور صحافی جنگ کی رپورٹنگ کرتا تھا، میری کئی رپورٹیں چھپی ہوئی ہیں۔ الحمد للہ کہ اس میں تھوڑا بہت حصہ میرا بھی ہے۔
اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج ہم کس پوزیشن میں ہیں؟ اگرچہ ہم اس کے بعد ایٹمی طاقت بن گئے لیکن آج بھی ہمیں خطرات درپیش ہیں اور سرحدوں کی صورتحال توجہ طلب ہے، اس لیے ہمیں دو بنیادی چیزوں کی فکر ہونی چاہیے:
- سرحدوں کے دفاع کو ملک کا جغرافیائی دفاع کہتے ہیں، اس میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اپنی سرحدیں مکمل کرنی چاہئیں۔ کشمیر کے بغیر ہماری سرحدیں مکمل نہیں ہیں۔ پاکستان کا جو نقشہ چوہدری رحمت علی مرحوم اور قائد اعظم مرحوم و مغفور نے بنایا تھا وہ نقشہ ابھی مکمل نہیں ہے ۔ آدھا تو ہم سے ویسے ہی چلا گیا اور جو باقی ہے وہ بھی مکمل نہیں ہے۔ جب تک کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہوتا اور کشمیری مظلوم مسلمان بھارت کے مظالم سے نجات نہیں پاتے ،ہمارا جغرافیائی نقشہ مکمل نہیں ہوتا۔ جغرافیائی دفاع کے حوالے سے ہمارا پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم کشمیر کی آزادی کے حوالے سے سنجیدہ ہوں، اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارت کے مظالم سے بچانے کی کوشش کریں اور کشمیر کی آزادی میں سنجیدہ کردار ادا کریں۔ یہ قوم کا، اداروں کا ، حکمرانوں کا اور ہم سب کا فریضہ ہے کہ اپنے جغرافیائی نقشے کو مکمل کرنے کی کوشش کریں اور وہ تب مکمل ہوگا جب کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔
- دوسری بات بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں سے کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے بھارت سے علیحدگی کس عنوان کے ساتھ حاصل کی تھی۔ ہم نے کہا تھا کہ ہندوؤں کی تہذیب الگ ہے، ہماری تہذیب الگ ہے ،اس لیے ہم گڈمڈ نہیں رہ سکتے۔ سر سید احمد خان مرحوم نے بھی تہذیب کو عنوان بنایا تھا اور بعد میں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم رحمہم اللہ نے بھی تہذیب کو عنوان بنا کر علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے، اور کوشش کر کے ہم الگ ہوئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم نے ہندوانہ تہذیب سے کٹنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کا مقصد انگریزی تہذیب میں ضم ہونا تھا یا ہم مسلم تہذیب و ثقافت کو بحال کرنے کے لیے علیحدہ ہوئے تھے؟ ہم اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ پاکستان کے مقصد ِقیام کے حوالے سے یہ بہت بڑا سوال ہے کہ ہم ہندوؤں کی تہذیب سے تو الگ ہوئے لیکن مغربی تہذیب میں گھستے جا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی سوچ اور فکر کو ویسٹرنائزیشن کا شکار کیا جا رہا ہے، ہمیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ مسلم تہذیب سے بہتر کون سی تہذیب ہو سکتی ہے، ہماری ثقافت سے بڑی ثقافت کس کی ہے؟ ہم نے دنیا پر ہزار بارہ سو سال حکومت کی ہے اور دنیا کو پتہ ہے کہ ہماری تہذیب کیا ہے۔
اس لیے میں اس موقع پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنی تہذیب، مسلم روایات اور مسلم ثقافت کو بحال کرنا اور بحال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اس سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ جو یلغار ہم پر تہذیبی طور پر کی جا رہی ہے، میڈیا اور اخبارات کے ذریعے ، لابنگ اور این جی اوز کے ذریعے ہم پر جو مغربی تہذیب مسلط کی جا رہی ہے ہمیں اس کا بھی اسی طرح مقابلہ کرنا چاہیے جس طرح ہم نے ہندو تہذیب کا مقابلہ کیا تھا۔ یوم دفاع پاکستان پر یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہم نے ہندو تہذیب کو قبول نہیں کیا تھا لیکن مغربی تہذیب کے معاملے میں ہم ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور مغربی فکر و فلسفہ کا ایجنڈا اپنا کام کرتا جا رہا ہے، گمراہی ، ارتدار اور دہریت پھیلتی جا رہی ہے اور ہماری توجہ اس طرف نہیں ہے۔
یومِ فضائیہ
۷ ستمبر کو سرکاری سطح پر یومِ فضائیہ منایا جاتا ہے ، اس حوالے سے کہ ۷ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت کی فضائی یلغار کے مقابلے میں لاہور کی فضاؤں میں ہمارے ہیرو ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) نے ایک منٹ کے اندر بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے تھے، اس سے دنیا میں دھاک بیٹھ گئی کہ ہم اس معاملے میں کمزور نہیں ہیں اور اس دن بھارت کو سمجھ آ گئی تھی کہ پاکستان سے فضائی مقابلہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ میری ایم ایم عالم سے ملاقات ہوئی ہے ۔ ہم اس حوالے سے سرکاری سطح پر یومِ فضائیہ مناتے ہیں ۔
یومِ ختمِ نبوت
یہی ۷ ستمبر ہم عوامی سطح پر یوم ِختم نبوت کے حوالے سے بھی مناتے ہیں۔ ہمارا ایک پرانا مطالبہ چلا رہا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ، جو ۱۹۷۴ء میں اس دن پورا ہوا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن نبوت کا دعوی کرنے والے بہت ہوں گے، ایک روایت میں تیس بڑے بڑے مدعیان نبوت اور ایک میں ستر کا ذکر ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں کافی عرصہ سے قادیانیوں کا سامنا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب مسلمان حکومتیں تھیں تو اس دور میں اگر کوئی نبوت کا دعوٰی کرتا تھا تو حکومتیں اپنے ضابطے کے مطابق اس سے نمٹ لیتی تھیں۔ لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کے دورِ حکومت میں نبوت کا دعوی کیا تھا، اس لیے جو کام ریاست کو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا بلکہ ریاست نے اس کی سرپرستی کی اور وہ پھیلتے گئے حتیٰ کہ پاکستان بننے تک ان کی بڑی تعداد ہو گئی۔ قادیانیت عوامی سطح پر ایک گروپ بن گیا تھا تو ہمیں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے اور نئی نبوت کے ساتھ مذہب اور دین کی بات کرنے والے ہمارے ساتھ کیسے رہیں گے اور ہم کیا کریں گے؟
اس پر تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ سب نے متفقہ طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ ہم قادیانیوں سے لڑیں گے نہیں، ان کو شہری حقوق دیے جائیں لیکن ان کا ٹائٹل مسلمان کا نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح دوسرے غیر مسلم اقلیت ہندو، سکھ اور عیسائی ملک میں پر امن رہتے ہیں، قادیانی بھی رہیں ، لیکن انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اس کے لیے ۱۹۵۳ء کی تحریک چلی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، اس کے بعد بھی جدوجہد جاری رہی اور بالآخر ۱۹۷۴ء میں یہ فیصلہ ہوا ۔ یہ بھٹو مرحوم کا زمانہ تھا اور عوامی تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا یہ فیصلہ انہوں نے کیا تھا۔ پورے ملک میں عوام سڑکوں پر تھی، سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو ہمارے کھاتے میں نہیں بلکہ اقلیتوں کے کھاتے میں شمار کیا جائے۔ جیسے ملک میں رہتے ہوئے ہندو اور سکھوں سے ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے، کوئی اکا دکا واقعہ ہو جاتا ہے، لیکن بحیثیت قوم ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ،اسی طرح قادیانی بھی یہاں رہیں لیکن مسلمان کے طور پر نہیں بلکہ وہ اپنی پہچان الگ کریں۔ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو منتخب پارلیمنٹ نے یہ مطالبہ منظور کیا تھا کہ قادیانیوں کے دونوں گروہ لاہوری اور قادیانی غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں رہیں، ان کو شہری حقوق قانون کے مطابق ملیں گے، لیکن وہ مسلمان شمار نہیں ہوں گے۔ یہ بہت بڑا تاریخی فیصلہ تھا۔
میں اس تاریخی فیصلے پر اپنے پڑھے لکھے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ اگر قادیانیت کو آج کی فریکونسی میں سمجھنا ہے تو علامہ اقبال ؒنے جو خط و کتابت پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ کی تھی جس میں انہیں آج کی زبان میں سمجھایا تھا کہ ہم قادیانیوں کو مسلمان کیوں نہیں مانتے، وہ خط و کتابت پڑھنی چاہیے ۔اور دوسرے ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو بھٹو مرحوم کی پارلیمنٹ میں وہ تقریر جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ہم انہیں کیوں اقلیت قرار دے رہے ہیں ۔آج کے نوجوانوں کو یہ دو چیزیں ضرور پڑھنی چاہئیں۔ آج کے ماحول میں قادیانیوں کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے اقبال اور نہرو کی خط و کتابت اور ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ میں کی گئی بھٹو مرحوم کی تقریر پڑھ لیں گے تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ہم نے ان کو غیر مسلم اقلیت کیوں قرار دیا تھا۔
لیکن اس فیصلہ پر مسئلہ ختم نہیں ہوا کیونکہ قادیانیوں نے اس کا انکار کر رکھا ہے کہ ہم نہیں مانتے۔ اس فیصلے کو نصف صدی ہو گئی ہے اور آج تک وہ اپنے انکار پر قائم ہیں جبکہ ہم اس پر قائم ہیں کہ قادیانیوں سے یہ فیصلہ تسلیم کروایا جائے ۔ بہت سی بیرونی قوتیں اس معاملہ میں قادیانیوں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ۷ ستمبر ملک کے دفاع کے حوالے سے یوم فضائیہ تو ہے ہی، ختم نبوت کے حوالے سے بھی ہمارا یوم فضائیہ ہے کہ ہم پر فضائی حملے ہوتے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف آ جاتی ہے اور کبھی یورپی یونین، کبھی اقوام متحدہ آ جاتی ہے اور کبھی امریکہ دباؤ ڈالنا شروع کر دیتا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمان مانو۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم انہیں مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔
یہ سوالات ہوتے ہیں دنیا میں۔ امریکہ میں ایک معروف کمیونٹی ہے جو مورمنز کہلاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ کی صدارت کے لیے ریپبلکن پارٹی کے ایک امیدوار تھے مٹ رومنے کے نام سے، وہ مورمن تھے۔ ایک دفعہ میں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں ایک مذاکرے میں شریک تھا۔ میں نے عرض کیا کہ قادیانیوں کو ہمارے کھاتے میں شمار نہ کریں، اور جس کھاتے میں چاہے شمار کریں۔ ایک عیسائی پادری نے مجھ سے سوال کیا کہ جب یہ قرآن کو مانتے ہیں، خدا کو مانتے ہیں، حضرت محمدؐ کو مانتے ہیں، تو پھر یہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ میں نے پوچھا کہ آپ کے ہاں مورمنز ہیں جو خدا کو مانتے ہیں، حضرت عیسیٰؑ کو مانتے ہیں، بائبل کو مانتے ہیں، کیا تم ان کو اپنے مذہب کا اور چرچ کا حصہ تسلیم کرتے ہو؟ کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ اس لیے کہ وہ نئے نبی کی اور نئی وحی کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہ کیتھولک، نہ پروٹسٹنٹ اور نہ آرتھوڈکس، کوئی بھی ان کو اپنا حصہ نہیں مانتا۔ پھر ہم سے قادیانیوں کو اپنا حصہ ماننے کا مطالبہ کیوں کرتے ہو؟ جہاں نئی کتاب اور نیا نبی ہو گا وہاں مذہب الگ ہو گا۔ میں نے کہا ہمارا کوئی اور جھگڑا نہیں ہے، وہ اپنا نام الگ کریں اور انہیں ہم مسلمانوں کے کھاتے میں شمار نہ کیا جائے۔
قادیانیوں سے ہمارا ایک مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ اپنے حقوق لیں لیکن کسی ضابطے کے تحت، یہ نہیں کہ جو تم کہو وہ تمہارے حقوق ہیں۔ جس دستور کو تم مانتے نہیں اس کے تحت حقوق کے مطالبے کا کیا مطلب ہے؟ بہرحال یہ کشمکش ہماری جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک قادیانی اس ملی اور قومی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔
چنانچہ ان حوالوں سے ہم یومِ دفاع اور یومِ فضائیہ بھی مناتے ہیں اور یومِ ختمِ نبوت بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تینوں محاذوں پر (۱) جغرافیائی سرحدوں کے محاذ پر (۲) تہذیبی تحفظ کے معاملے میں (۳) اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر ثابت قدم رکھیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔