تحریک واگزاریٔ مسجد نور گوجرانوالہ اور نوید انور نوید ایڈووکیٹ مرحوم

   
۲۶ اکتوبر ۲۰۰۵ء

ان سطور کی تحریر کے وقت میں واشنگٹن میں ہوں اور ایک دو روز میں واپس روانگی کی تیاری کر رہا ہوں۔ گزشتہ شب گھر سے اہلیہ نے فون کیا تو اس میں یہ خبر بھی سنائی کہ نوید انور نوید ایڈووکیٹ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تفصیل پوچھی تو بتایا کہ اخبار میں ان کی وفات پر فاتحہ خوانی کی خبر پڑھی ہے اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔ نوید انور نوید گوجرانوالہ کے معروف وکلاء میں سے تھے، تین بار ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے تھے اور غالباً اس سے قبل ایک بار سیکرٹری بھی رہے تھے۔ وہ سیاسی طور پر نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے پیروکاروں میں سے تھے اور پاکستان جمہوری پارٹی میں کچھ عرصہ سرگرم عمل رہے۔ ان کے ساتھ ہماری رفاقت کا بھی ایک دور گزرا ہے جس سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، یہ یادیں نئی نسل کی امانت ہیں اور اسی خیال سے انہیں احاطۂ تحریر میں لا رہا ہوں۔

نوید انور نوید مرحوم ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں ایک پرجوش طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے، شعلہ نوا مقرر اور سرگرم کارکن تھے اس لیے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایک ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابل آئے، شہری حلقہ تھا، انہوں نے انتخابی مہم کا بازار خوب گرم کیا، الیکشن تو نہ جیت سکے مگر اپنا تعارف کرا گئے۔ وہ مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور مفتیٔ شہر حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ سے متاثر تھے۔ مفتی صاحبؒ کے ہاں ان کا اکثر آنا جانا رہتا تھا اور حضرت مفتی صاحبؒ بھی ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے، اور اسی حوالے سے ہمارے ساتھ بھی اچھی راہ و رسم ہو گئی۔

پھر ۱۹۷۶ء میں نوید انور نوید مرحوم مسجد نور کی واگزاری کی تحریک کے قائد کے طور پر سامنے آئے اور بھٹو حکومت کے خلاف معرکہ کا ایک اور بازار گرم کر دیا جس کی یادیں کم و بیش تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر گوجرانوالہ کے ساتھ ملحق وسیع جامع مسجد کو مسجد نور کہا جاتا ہے جسے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کا نام لیے بغیر حکومت نے مسجد نور کو اس سے ملحقہ پینتالیس کمروں سمیت اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔ محکمہ اوقاف اس نوٹیفیکیشن کے مطابق مسجد و مدرسہ دونوں پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے مجھے اور نوید انور نوید مرحوم کو بلایا اور فرمایا کہ یہ بڑا خطرناک فیصلہ ہے، اگر اس پر عمل ہوگیا تو ملک بھر میں مدارس پر سرکاری قبضے کا راستہ کھل جائے گا اس لیے اس کی مزاحمت ہونی چاہیے اور مؤثر احتجاج ہونا چاہیے، آپ نوجوان لوگ اس کی کوئی صورت نکالیں۔ اس پر ہم تیار ہوگئے اور مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔

مسجد نور پر حکومت کے قبضے کے اس فیصلے کا پس منظر یہ تھا کہ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان نے گوجرانوالہ میں کل پاکستان نظام شریعت کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور شیرانوالہ باغ میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کے ملک گیر اجتماع کا پروگرام بنا لیا تھا۔ مگر عین وقت پر حکومت نے باغ میں کنونشن کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے یہ کنونشن جامع مسجد نور میں منعقد کیا گیا۔ ملک بھر سے پانچ ہزار کے لگ بھگ علماء کرام اور دینی کارکن اس کنونشن میں شریک ہوئے تھے۔ جمعیۃ کی مرکزی اور صوبائی قیادتیں بھرپور انداز میں شریک ہوئیں، استقبالیہ کے صدر حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور سیکرٹری مولانا مفتی عبد الواحدؒ تھے جبکہ ان کے نائب اور معاون کے طور پر راقم الحروف سرگرم عمل تھا۔ یہ ملک میں بھٹو حکومت کے عروج کا دور تھا اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا مفتی محمودؒ کی جماعت کا اتنا بڑا اور کامیاب اجتماع پبلک پارک میں اجازت نہ دیے جانے کے باوجود منعقد ہوگیا تھا، اس لیے مدرسہ نصرۃ العلوم پر سرخ نشان لگا دیا گیا۔ اس کنونشن سے خطاب کرنے والے تیس سے زائد رہنماؤں کے خلاف ۱۶ ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جن میں مقامی صرف میں تھا۔ جمعیۃ علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے قبل از گرفتاری ضمانتیں نہ کرانے کا فیصلہ کر لیا جس کی وجہ سے مجھے سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرنا پڑا اور میں گرفتار ہوگیا، یہ میری زندگی میں پہلی گرفتاری تھی۔ تقریباً آٹھ دس دن ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی ہوئی۔

اس کے چند ماہ بعد صوبائی محکمہ اوقاف کی طرف سے مسجد نور گھنٹہ گھر گوجرانوالہ کو اس سے ملحقہ تمام کمروں سمیت اپنی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا جس کی مزاحمت کرنے کا ہم چند افراد نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی سرپرستی میں عزم کر لیا۔ نوید انور نوید مرحوم اور راقم الحروف کے ساتھ جن حضرات نے اس تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا ان میں علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا سید عبد المالک شاہ، ڈاکٹر غلام محمد اور مولانا صوفی رستم علی قادری بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے اس تحریک کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ اس تحریک کو ’’تحریک بحالی مسجد نور‘‘ کا نام دیا گیا اور اس کے لیے ’’عوامی مجلس تحفظ مساجد و مدارس‘‘ کے نام سے باقاعدہ فورم قائم کیا گیا جس کے چیئرمین نوید انور نوید ایڈووکیٹ مرحوم تھے اور باقی ہم سب ان کے معاون طور پر شریک کار تھے۔ تحریک کی طرف سے اعلان یہ ہوا کہ مسجد نور و مدرسہ نصرۃ العلوم پر سرکاری قبضے کی مزاحمت کی جائے گی اور محکمہ اوقاف کے اس نوٹیفیکیشن کی واپسی تک شہر میں احتجاجی طور پر گرفتاریاں پیش کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔ طریق کار یہ طے ہوا تھا کہ ہفتہ میں دو دن پانچ پانچ کارکنوں کا گروپ شہر میں نافذ دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاریاں پیش کرے گا۔ پہلے گروپ میں جس نے گرفتاریوں کے اس سلسلے کا آغاز کیا میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحق خان بشیر، محمد زبیر بٹ، محمد یوسف انصاری اور شبیر احمد گوریلا شامل تھے ، پانچویں ساتھی کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے۔

اس دوران محکمہ اوقاف نے ہمارے کچھ مقامی ’’مہربانوں‘‘ کے اشارے سے یہ چال چلی کہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم، جو کہ ہمارے چچا محترم اور استاد و مربی ہیں، کی جگہ میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کو مسجد نور کا خطیب مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ اس کا مقصد ہمارے خاندان میں تفریق پیدا کرنا تھا اور دو بھائیوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا تھا جو ایک انتہائی خطرناک بات تھی۔ قارن صاحب کو یہ آرڈر ملا تو انہوں نے مجھ سے بات کی، میں نے ان سے کہا کہ یہ جتنی بڑی سازش ہے جواب بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ گرفتاری کے لیے تیار ہو جائیں اور کارکنوں کے مظاہرے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سب کے سامنے یہ نوٹیفیکیشن پڑھیں اور اس کے بعد اسے پرزے پرزے کرتے ہوئے اعلان کریں کہ میری طرف سے اس آرڈر کا یہ جواب ہے اور میں خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور تقریباً پانچ ماہ کا عرصہ جیل میں گزارا۔

ہم پروگرام کے مطابق ہفتہ میں دو دن گرفتاریاں پیش کرتے اور مختلف مقامات پر احتجاجی جلسے کرتے۔ ابتدا میں ہم اعلان کر دیتے کہ فلاں جگہ سے فلاں وقت گرفتاریاں پیش کی جائیں گی، پولیس اس جگہ کو آکر گھیر لیتی اور کارکنوں کا بسا اوقات وہاں پہنچنا مشکل ہو جاتا۔ پھر ہم نے جگہ اور وقت کا پیشگی اعلان کرنا چھوڑ دیا، کارکن اچانک کسی پرہجوم جگہ پر کتبے اٹھائے نمودار ہوتے اور نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک طرف بڑھنا شروع کر دیتے۔ پولیس افراتفری کے عالم میں وہاں پہنچتی اور کارکنوں کو گرفتار کرتی۔ گرفتاری کے لیے کارکنوں کو تیار کرنا، انہیں پروگرام کے مطابق گرفتار کروانا، گرفتاری کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنا اور جیل میں موجود ساتھیوں کی خبر گیری کرنا ڈاکٹر غلام محمد، صوفی رستم علی قادری اور مولانا سید عبد المالک شاہ کے ذمہ تھا جنہوں نے بہت اچھے طریقے سے اس کام کو نبھایا۔ پریس سے رابطہ رکھنا، خبریں چھپوانا، لوگوں کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنا اور اگلے پروگرام کی منصوبہ بندی کرنا نوید انور نوید اور راقم الحروف کا کام تھا جو ہم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی سرپرستی اور مشورہ کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔

اس دوران ہمارے بعض مہربان دوستوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ چند سرپھرے نوجوان ہیں جو بھٹو حکومت سے ٹکر لے کر پورے ملک کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، مرکزی قیادت میں کوئی ان کے ساتھ نہیں ہے اور یہ خوامخواہ ٹکراؤ اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو حالات کے تقاضے اور حکمت و دانش کے خلاف ہے۔ میں نے اسلام آباد جا کر حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہاں جلسہ عام رکھو، میں فلاں دن آؤں گا اور اس تحریک کی حمایت کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ تشریف لائے، مسجد نور میں ہی جلسہ ہوا اور انہوں نے نہ صرف اس جلسہ میں تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کیا بلکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی بجٹ تقریر میں اس تحریک کا ذکر کیا اور اس کی تائید کرتے ہوئے حکومت سے مسجد نور کو واگزار کرنے کا مطالبہ کیا۔

محکمہ اوقاف نے اس دوران مولانا عبد القدوس قارن کی گرفتاری کے بعد مرکزی جامع مسجد سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے امام مولانا قاری محمد عبد اللہ کو مسجد نور کا خطیب مقرر کرنے کا آرڈر جاری کیا۔ وہ آرڈر لے کر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے پاس آئے، حضرت صوفی صاحب نے ان سے کہا کہ اگر مسجد نور کے نمازی آپ کو بطور خطیب قبول کرتے ہیں تو تشریف لے آئیے۔ مگر مسجد نور کے نمازی تو کجا پورا شہر سراپا احتجاج تھا، اس لیے محترم قاری صاحب نے بھی محکمہ سے معذرت کر دی۔

ہم چند افراد نے جو اس تحریک کو چلا رہے تھے اپنے بارے میں فیصلہ کر رکھا تھا کہ ہم گرفتاریاں نہیں دیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ گرفتار نہ ہوں تاکہ تحریک کا تسلسل قائم رہے۔ چنانچہ پولیس کے ساتھ ہماری آنکھ مچولی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ مجھے مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جمعہ پڑھانا ہوتا تھا جبکہ میری رہائش گکھڑ میں ہوا کرتی تھی جہاں سے میں جمعہ اور درس کے لیے گوجرانوالہ آیا کرتا تھا۔ پولیس جمعہ سے قبل مسجد کی ناکہ بندی کر لیتی اور عصر تک یہ ناکہ بندی رہتی، اس دوران پولیس کی آنکھوں سے بچ کر میں مسجد میں داخل ہوتا اور جمعہ پڑھا کر مسجد سے نکل بھی جاتا۔ پولیس کا اپنا طریقہ کار تھا اور ہمارا اپنا طریقہ کار تھا۔ کافی ہفتوں تک یہ آنکھ مچولی چلتی رہی اور پولیس اپنی پوری کوشش کے باوجود مجھے ناکہ بندی کے دوران گرفتار نہ کر سکی۔ اس دور میں گوجرانوالہ میں میاں عبد الرشید اے سی تھے جو بعد میں محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکرٹری رہے ہیں۔ کافی عرصہ بعد جب وہ سیکرٹری اوقاف تھے میں ایک وفد کے ساتھ انہیں ملنے گیا اور اپنا تعارف کرانا چاہا تو بولے کہ میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ہم نے آپ کی گرفتاری کے لیے مسجد نور کی تحریک کے دوران بہت جتن کیے لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے، آخر آپ کس طرح پولیس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے؟ میں نے گزارش کی کہ یہ ’’پیشہ وارانہ راز‘‘ ہے جو میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔

لیکن میں مسجد نور کی تحریک کے دوران بعد میں گکھڑ سے گرفتار ہوگیا اور تقریباً ساڑھے تین ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۸ اکتوبر کو میری رہائی ہوئی جو میرا یوم پیدائش بھی ہے۔ اسی دوران نوید انور نوید مرحوم بھی گرفتار ہوگئے اور تحریک کو جاری رکھنے کی تمام تر ذمہ داری مولانا سید عبد المالک شاہ، ڈاکٹر غلام محمد، صوفی رستم علی قادری اور ان کے رفقاء پر آگئی اور انہوں نے کمال ہمت سے کام لے کر تحریک کے تسلسل کو ٹوٹنے نہ دیا۔ نوید انور نوید مرحوم احتجاج کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے اور نئے نئے انداز میں احتجاجی خبریں بنانے کے ماہر تھے۔ وہ خود کو اس معاملے میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کا شاگرد کہا کرتے تھے۔ انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کر دی اور کئی دن تک اس حوالے سے خبروں کا بازار گرم رکھا۔ تحریک میں گرفتاری کے لیے ملتان، شیخوپورہ، جہلم، شاہ کوٹ، وزیر آباد، لاہور اور دیگر مقامات سے بھی کارکن آئے اور خود کو اس قربانی کے لیے پیش کیا۔ دینی کارکنوں کے علاوہ مسلم لیگ گوجرانوالہ کے ایک پرجوش رہنما خواجہ انور مرحوم نے بھی گرفتاری دی اور کافی دنوں تک جیل میں رہے۔ ڈسٹرکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ چودھری یار محمد درانہ تھے جو شریف اور جری آدمی تھے۔ جبکہ اوقاف کے صوبائی وزیر رانا محمد اقبال ایڈووکیٹ تھے جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی کے حکم سے مسجد نور کو تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا۔ چنانچہ ہمارا براہ راست انہی سے مقابلہ تھا، اتفاق سے جیل خانہ جات کے وزیر بھی وہی تھے۔ ایک دن سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھے دفتر میں بلایا اور کہا کہ جن سے آپ کی لڑائی ہے جیلوں کے وزیر بھی وہی ہیں۔ وہ آپ لوگوں کے بارے میں جو کچھ مجھے کہہ سکتے ہیں اس کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اپنے ساتھیوں کو کنٹرول میں رکھیں، اگر آپ حضرات کی طرف سے جیل کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو تو اوپر کا دباؤ میں سنبھال لوں گا۔ چنانچہ ہم نے بھی کوشش کی کہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو اور انہوں نے بھی تمام تر دباؤ کے باوجود ہمارے ساتھ سلوک مناسب ہی رکھا۔ جیل میں ہمارے لیے دو بیرکیں تھیں، ان میں اگر کچھ دوسرے قیدی تھے تو وہ بھی ہمارے مزاج کے ہی تھے اس لیے نمازوں، درس، مجلس ذکر اور دیگر معمولات کا سلسلہ چلتا رہا۔

مجموعی طور پر دو سو کے لگ بھگ افراد گرفتار ہوئے اور تقریباً تین ماہ تک یہ تحریک چلتی رہی۔ شہر کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے ہمارا ساتھ دیا۔ احتجاجی جلسوں میں خطاب کرنے والوں میں علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا احمد سعید ہزاروی، حافظ گلزار احمد آزاد، مولانا فضل الرازق مرحوم اور مولانا علی احمد جامی کے علاوہ بریلوی مکتب فکر سے مولانا رحمت اللہ نوری اور مولانا خالد حسن مجددی، جبکہ اہل حدیث مکتب فکر سے مولانا عبد الرحمان واصل مرحوم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ بلکہ مرکزی جامع مسجد منعقدہ ایک جلسہ میں ایسا بھی ہوا کہ سامعین میں شیعہ مکتب فکر کے معروف رہنما اور کھیالی دروازہ کی امام بارگاہ کے خطیب خواجہ محمد وارث بھی موجود تھے، انہوں نے ایک مقرر کی پرجوش تقریر کے دوران وہیں سے ہاتھ کھڑے کر کے اعلان کیا کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ دوسرے دن انہیں گرفتار کر لیا گیا اور چند روز جیل میں رہنے کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہوئے۔

قومی پریس نے اس مہم میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور گوجرانوالہ کی اس احتجاجی تحریک نے ملک گیر شہرت حاصل کر لی۔ اس دوران ایک موقع پر میں ملاقات کے لیے نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر محترم جناب مجید نظامی کے پاس گیا تو انہوں نے تحریک کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’راشدی صاحب! یہ ٹیسٹ کیس ہے‘‘۔ میں نے گزارش کی کہ ہم بھی اسے ٹیسٹ کیس سمجھ کر ہی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اس تحریک کے لیے آواز اٹھائی جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علامہ رحمت اللہ ارشد مرحوم اور جناب تابش الوری نے کلمۂ حق بلند کیا اور اس طرح یہ تحریک جو ایک شہر میں ایک مسجد کی واگزاری کے لیے شروع کی گئی تھی اس کی اہمیت قومی اور صوبائی سطح پر محسوس کی جانے لگی۔

دورانِ تحریک ایک اور مسئلہ سامنے آگیا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے دارالاقامہ میں کم و بیش تین سو کے لگ بھگ طلبہ ہر وقت مقیم رہتے ہیں، ان کی مدرسہ میں موجودگی اور شہر میں گرفتاریوں اور مظاہروں کی فضا اس بات میں رکاوٹ رہی کہ حکومت پولیس ایکشن کے ذریعے مسجد و مدرسہ پر قبضے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائے کیونکہ اس صورت میں بڑے تصادم کا خطرہ تھا۔ مگر شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں مدرسہ خالی رہتا تھا اور اس بات کا امکان موجود تھا کہ اس دوران پولیس ایکشن کے ذریعے محکمہ اوقاف مدرسہ پر قبضہ کر لے۔ یہ امکان اس لیے بھی زیادہ محسوس ہو رہا تھا کہ صوبائی وزیر اوقاف اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ طے پایا کہ شعبان و رمضان کی تعطیلات کے دوران مدرسہ کو خالی نہ رہنے دیا جائے اور دورۂ تفسیر القرآن شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے پہلا دورۂ تفسیر شعبان اور رمضان المبارک کے دوران اسی سال پڑھایا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء تک کم و بیش اکیس سال جاری رہا جس سے ملک بھر کے ہزاروں علماء و طلبہ نے استفادہ کیا اور اس طرح اس معاملہ میں خیر کا یہ پہلو بھی نکل آیا۔

رمضان المبارک ہم نے جیل میں گزارا اور عید بھی وہیں کی۔ تراویح میں قرآن کریم بھی مختلف حفاظ نے سنایا اور اسباق کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ہمارا طریق کار یہ تھا کہ جو کارکن خود گرفتاری پیش کرتے ان کی ضمانت نہیں کرائی جاتی تھی، اور جن کو پولیس اپنے طور پر گرفتار کرتی ان کی ضمانت پر رہائی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ضمانت عام طور پر ہو جایا کرتی تھی بلکہ حکومت کی خواہش ہوتی تھی کہ گرفتارشدگان ضمانت پر رہا ہو کر گھروں کو جائیں۔ مگر تحریک کا فیصلہ یہ تھا کہ جب تک حکومت مسجد نور کو اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن واپس نہیں لیتی گرفتار شدگان ضمانتیں نہیں کرائیں گے اور جیل میں ہی رہیں گے۔ بالآخر کارکنوں کی ثابت قدمی اور تحریک کے ملک میں پھیلتے ہوئے اثرات کو دیکھ کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مداخلت کی اور صوبائی حکومت نے مسجد نور کو تحویل میں لینے کا آرڈر واپس لے لیا جس پر یہ تحریک کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔

نوید انور نوید مرحوم اس تحریک میں ہمارے سربراہ تھے۔ ان کا دماغ، زبان، قلم اور جسم اس تحریک کے لیے مسلسل حرکت میں رہے اور ان کے جنون نے ہمیں بھی مسلسل حرکت میں رکھا۔ نوید انور نوید مرحوم کے ساتھ ہمارا بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے کھرے دشمن تھے۔ انہوں نے ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک میں بھی بطور کارکن اور پھر بطور وکیل ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا اور بے لوث خدمات سرانجام دیں۔ ان کی جدوجہد اور تگ و تاز کی بہت سی یادیں ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں، نیکیاں قبول کریں، گناہوں سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter