رمضان المبارک کی آمد اور دینی حلقوں کے تحفظات

   
۱۴ اپریل ۲۰۲۰ء

اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرؤف محمدی کی چٹھہ بختاور کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھانے کی پاداش میں گرفتاری و رہائی اور بعض دیگر خطباء کے خلاف اسی نوعیت کی کارروائی سے جمعۃ المبارک کے حوالہ سے سرکاری ہدایات کا مسئلہ سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہو گیا ہے۔ جبکہ رمضان المبارک کی آمد اور مساجد میں نماز باجماعت اور نماز تراویح کی ادائیگی کی متوقع صورتحال دینی حلقوں کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

اس سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی قائد جمعیۃ علماء اسلام مولانا فضل الرحمان سے ملاقات اور ان کی طرف سے مشترکہ اعلامیہ کی تفصیلات قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں گوجرانوالہ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی دو مشترکہ میٹنگوں کا ذکر کیا تھا، ان میں اختیار کردہ موقف قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس سلسلہ میں عوامی جذبات اور علماء کرام کے موقف کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔

مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کی دعوت پر علامہ خالد حسن مجددی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس کے فیصلہ کے مطابق (۱) علامہ خالد حسن مجددی (۲) مولانا پروفیسر محمد سعید کلیروی (۳) علامہ عارف حسین تائبی (۴) حاجی بابر رضوان باجوہ اور (۵) ابوعمار زاہد الراشدی (راقم الحروف) کی جانب سے درج ذیل عرضداشت ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔

’’۸ اپریل بروز بدھ بزرگ عالم دین مولانا خالد حسن مجددی کی زیر صدارت چاروں مسالک کے جید علماء اکابرین شہر اور زعمائے ملت کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف امور پر غوروغوض کے بعد درج ذیل نکات طے پائے:

  1. پوری دنیا کی طرح وطن عزیز میں بھی کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لیے خصوصی دعا کی گئی، اور پوری قوم سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس وبا سے نجات کے لیے اللہ کے حضور توبہ استغفار کریں۔
  2. کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات اور اطباء کی طرف سے دی گئی احتیاطی تدابیر کی ہدایات پر بھرپور عمل کرنے کی عوام الناس سے اپیل کی گئی، انسانیت کے تحفظ کے لیے تمام تر حکومتی اقدامات کی مکمل تائید اور حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
  3. اس کے ساتھ ہی بعض حکومتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا، جن میں پولیس کی طرف سے مساجد کے آئمہ کے ساتھ ناروا سلوک، گستاخانہ لہجہ اور موقف سنے بغیر ایف آئی آر کا اندراج کرنا، علماء و خطباء سے مختلف قسم کے پرفارمے پر کروانے کی کوششیں، نمازیوں کو مساجد میں آنے سے روکنے کی تمام تر ذمہ داری علماء پر ڈالنے کی ناروا کوشش شامل ہے، جن پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جناب والا!

اجلاس میں موجود علماء نے اتفاق کیا کہ اس سلسلے میں آپ کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا جائے اور مؤثر اقدامات کی درخواست کی جائے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور اہلیان گوجرانوالہ کو بیماری سے بچانے کی مخلصانہ کوششوں کو ہمارا جرم نہ سمجھا جائے۔

منڈیوں، بینکوں، شاپنگ مالز اور اس نوعیت کی دیگر جگہوں جنہیں Sops کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، حالانکہ ایسی جگہوں میں لوگوں کا جم غفیر موجود ہوتا ہے، مناسب احتیاطی تدابیر کا فقدان ہے۔ لیکن اس کے برعکس مساجد میں احتیاطی تدابیر کے باوجود لوگوں کے مختصر وقت کے لیے بوقت نماز آنے پر مجرموں جیسا سلوک لمحہ فکریہ ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر انتظامیہ کے متعلق غم و غصہ کا اظہار پایا جا رہا ہے۔ صرف مساجد میں عبادات کے لیے مختصر وقت اور مختصر اجتماع کو ہی کیوں کرونا وائرس کے فروغ کا سبب سمجھا جا رہا ہے، جبکہ یہاں صفائی کا بھی بہترین انتظام ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں خود حکمران مساجد اور دیگر عبادت گاہیں کھلوا رہے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد سے نصف ماہ قبل ہی نماز تراویح و دیگر عبادات کی پابندی کی خبریں بھی عوام الناس میں بے چینی کا باعث بن رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر گھسے ہوئے ہیں جو کسی بھی صورت میں انتظامیہ، پولیس اور عوام کو باہم الجھانا چاہتے ہیں، جو ملک و ملت کے لیے کسی بھی صورت مفید نہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ:

  • مناسب احتیاطی تدابیر کے ساتھ دینی فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی روک تھام مناسب نہیں، تاکہ لوگ یکسو ہو کر عبادات کر سکیں اور اس وبا سے نجات کے لیے اللہ کے حضور دعا اور مناجات کر سکیں۔
  • کورونا لاک ڈائون سے متاثرہ افراد معاشرہ کو راشن کی فراہمی پر بے جا پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ باہم مددگار بن کر اسلامی اخوت کا مظاہرہ کر سکیں۔
  • پولیس افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ آئمہ مساجد، خطباء، امام مسجد صاحبان سے خوش اخلاق رویہ سے پیش آئیں۔

اُمید ہے کہ مندرجہ بالا گزارشات پر نا صرف جناب خود غور فرمائیں گے بلکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو بھی ان تحفظات سے مثبت انداز میں مناسب احکامات کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت اس مشکل کو آسان فرمائے اور ہمیں اس وبا سے جلد نجات عطاء فرمائے، آمین۔

جبکہ علماء کرام کے دوسرے مشترکہ اجلاس کی قرارداد یہ ہے کہ:

’’مرکزی جمعیۃ اہل حدیث عالمی کی دعوت پر بلائے گئے اجلاس میں تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین علماء کرام کا متفقہ اعلامیہ جو کہ میاں گلزار احمد (صدر ماربل ایسوسی ایشن پاکستان) کی رہائش گاہ پر مولانا زاہد الراشدی کی صدارت میں ہوا۔

مساجد و مدارس کو بند کروانا اللہ کے عذاب کو مزید دعوت دینا ہے۔ اگر سبزی منڈیاں، غلہ منڈیاں، شاپنگ مالز، کریانہ اسٹورز، حکومتی دفاتر اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بن سکتیں تو مساجد ان مقامات سے کہیں زیادہ صاف ستھری اور محفوظ ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت مساجد کو بند کروانے کی بجائے مساجد میں اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام کروائے اور مساجد میں سینیٹائزر گیٹ مہیا کرے۔

لاک ڈاؤن کو متوازن بنایا جائے، دیہات کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی مخصوص اوقات میں کاروبار کی اجازت دی جائے تاکہ دیہاڑی دار مزدور اور سفید پوش طبقہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن سے متاثر ہو کر بھوک افلاس سے نہ مرنے لگ جائے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter