صوابی کا ضمنی انتخاب
صوابی سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے ضمنی الیکشن میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مرکزی اور صوبائی وزراء کی ایک بڑی کھیپ نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لیے صوابی میں ڈیرہ جمائے رکھا، اور گزشتہ دو ہفتوں سے تو مرکزی وزیر داخلہ عبد القیوم خاں کے داخلی امور بھی صوابی کے حلقہ میں مرکوز ہو کر رہ گئے تھے، اور الیکشن سے ایک روز قبل خان موصوف نے اس الیکشن کو ریفرنڈم قرار دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور قیوم لیگ کا مشترکہ امیدوار نیپ کے امیدوار عبد العزیز خاں کے مقابلہ میں الیکشن نہ جیت سکا۔
تمام وسائل بروئے کار لانے کے باوجود حکومتی پارٹی کی شکست اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ صوبہ سرحد کے عوام نیپ اور جمعیۃ پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں اور سرحد کی نئی قائم شدہ غیر جمہوری حکومت سرحد کے عوام کے اعتماد سے محروم ہے۔
ہم وزیر داخلہ سے یہ کہیں گے کہ ان کے بقول یہ الیکشن ریفرنڈم تھا، اور یہ ریفرنڈم نیپ جمعیۃ نے جیت لیا ہے، اس لیے وہ اور ان کی نئی صوبائی حکومت اخلاقی مظاہرہ کرتے ہوئے کرسئ اقتدار سے الگ ہو جائے اور صوبہ سرحد کی زمام کار نیپ جمعیۃ کے مخلوط پارلیمانی گروپ کے حوالہ کر دے جو عوام کے اعتماد پر پورا اترا ہے۔
مشنری اداروں کی سرگرمیاں
جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما حضرت مولانا عبد الحق صاحب ممبر قومی اسمبلی نے اسمبلی میں مسیحی مشنری اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے درست فرمایا ہے کہ مشنری اداروں کی کارگزاری نہ صرف پاکستان کے سرکاری مذہب اسلام کے تحفظ کے منافی ہے بلکہ ملکی سالمیت کے نقطۂ نظر سے بھی محلِ نظر ہے۔ کیونکہ کافی عرصہ سے ان مشنری اداروں نے بین الاقوامی سرحد کے اردگرد سادہ لوح مسلمانوں کو لالچ یا دھوکہ سے مسیحی بنانے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے، اور یہ بات یقیناً غور طلب ہے۔
مولانا عبد الحق صاحب کے اس اظہارِ حق پر مسیحی لیگ کے جیمز صوبے خاں بہت سیخ پا ہیں اور انہوں نے اس قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسیحی اقلیت کے حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔
ہم جیمز صوبے خاں صاحب اور ان کے اعوان و انصار سے یہ عرض کریں گے کہ آپ ذرا اپنی اداؤں پر غور کریں اور اسے پاکستانی قوم کی فراخدلی یا سادگی سمجھیں کہ وہ آپ کی ان مذموم سرگرمیوں کو برداشت کیے جا رہی ہے۔ ورنہ کوئی ملک یا قوم اپنے سرکاری مذہب کے خلاف کھلم کھلا تبلیغ کی روادار نہیں۔ اور پھر آپ تبلیغ کونسی کرتے ہیں؟ آپ سادہ لوح اور دین سے ناواقف عام مسلمانوں کی غربت اور سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کے مذہب کا استحصال کرتے ہیں، اس کا نام تبلیغ نہیں مذہبی ڈکیتی ہے۔
مولانا عبد الحق صاحب نے حکومت کو بروقت اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور اگر اس طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ افسوسناک غفلت شعاری ہو گی جو منتخب عوامی حکومت کے شایان شان نہیں۔
ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی تبدیلی
ترجمانِ اسلام کے گزشتہ شمارہ میں اس بات کا ذکر تھا کہ گورنر پنجاب نے پیپلز گارڈ کی شکایت پر اس ’’جرم‘‘ میں گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی جواب طلبی کی ہے کہ انہوں نے متحدہ جمہوری محاذ کے رہنماؤں کے کاروانِ جمہوریت کی گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن پر آمد کے موقع پر پیپلز گارڈ کی غنڈہ گردی کی پشت پناہی کیوں نہیں کی۔ اور ان کے غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے اپوزیشن کارکنوں کے جوابی حملہ سے پیپلز گارڈ کو پسپائی کیوں اختیار کرنا پڑی۔
اب یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ڈی سی اور ایس پی دونوں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ کس قدر افسوسناک بات ہے۔ کیا اس کا نام قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا غنڈہ گردی کی پشت پناہی نہ کرنا جرم ہے؟ کیا افسروں کی صرف یہی ڈیوٹی رہ گئی ہے کہ وہ پیپلز گارڈ کی غنڈہ گردی کا تحفظ کریں؟ اور کیا اپوزیشن کارکنوں کو یہ حق بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ غنڈوں کی سنگ باری کے جواب میں دفاعی کاروائی کر سکیں؟
قانون اور جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیدارو! سوچو! قوم کو تباہی اور انارکی کے کس اندھے غار میں دھکیل رہے ہو؟
بگٹی کی کنفیڈریشن
بلوچستان کے گورنر اکبر بگٹی نے ایک بار پھر اپنے دل کی بات ظاہر کی ہے کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک کنفیڈریشن قائم ہونی چاہیے۔ اس سے قبل بھی بگٹی صاحب لندن کے قیام کے دوران اس عندیہ کا اظہار کر چکے ہیں اور اس پر کافی لے دے ہو چکی ہے۔ اور یہ بات ہنوز معمہ ہے کہ کنفیڈریشن کی بات کرنے والا سیاستدان، ملکی سالمیت کے تحفظ کا راگ الاپنے والے صدر بھٹو کے ایجنٹ کی حیثیت سے بلوچستان کی گورنری کی کرسی پر کیونکر براجمان ہے؟ کہیں یہ قصہ تو نہیں کہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ایک صاحب ملکی سالمیت کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں، اور دوسرے صاحب اس ڈھنڈورے کی آڑ میں کنفیڈریشن کے منصوبہ کو پروان چڑھائیں۔
بہرحال بات کچھ بھی ہو، حکومت کا فرض ہے کہ اس بارہ میں قوم کو اعتماد میں لے۔ نیز بگٹی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف کنفیڈریشن والی بات بلکہ عراقی اسلحہ کی برآمدگی بھی ان کے ذمہ قوم کا قرض ہے۔ یہ قرض ان کو بہرحال ادا کرنا پڑے گا۔ کرسی کو دوام نہیں، اور یہ قوم کرسی سے اتار کر ’’عقیدت کے جو پھول‘‘ نچھاور کیا کرتی ہے، اس منظر کی کیفیت ایوب خاں سے دریافت کر لیجئے۔