اسلام دشمنی ۔ یہود و نصارٰی میں قدرِ مشترک

   
تاریخ : 
۲ نومبر ۲۰۰۳ء

امریکی سینٹ نے ملائیشیا کے لیے بارہ لاکھ ڈالر کی فوجی امداد کو مبینہ مذہبی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور یہودیوں پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی تنقید کو ہدف اعتراض بناتے ہوئے امریکی قیادت نے کہا ہے کہ فوجی امداد کے حصول کے لیے مہاتیر محمد کو اس تنقید پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ دوسری طرف ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے جو اِن سطور کی اشاعت تک اپنے منصب سے ریٹائر ہو چکے ہوں گے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یہودیوں کے بارے میں جو یہ بات کہی تھی کہ دنیا پر دراصل چند مٹھی بھر یہودی حکومت کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ان کا طرز عمل دشمنی اور عناد کا ہے، مغربی حکمرانوں اور پریس کے ردعمل نے ان کی اس بات کو درست ثابت کر دیا ہے۔

اس سے قبل مغربی پریس اور سیاسی رہنماؤں نے یہودیوں کے خلاف مہاتیر محمد کے ان ریمارکس پر منفی ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اب امریکی سینٹ نے بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ مغرب کو یہودیوں پر مہاتیر محمد کی یہ تنقید بہت بری لگی ہے۔ اور مہاتیر محمد نے، جو اس سے قبل بھی مغرب کے طرز عمل کے مسلسل ناقد رہے ہیں، جاتے جاتے اسے اور زیادہ غضبناک کر دیا ہے جبکہ ان کا یہ اعلان تو مغرب کے لیے اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز ثابت ہو سکتا ہے کہ ہمیں بارہ لاکھ ڈالر کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم یہ رقم امریکہ سے لینے کی بجائے دیگر ذرائع سے حاصل کر لیں گے۔

جہاں تک مہاتیر محمد کے ان ریمارکس کا تعلق ہے کہ یہودی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں، انہوں نے دنیا پر درپردہ حکومت کا اختیار حاصل کر لیا ہے اور اس وقت دنیا پر دراصل وہی حکمرانی کر رہے ہیں، اس پر مغرب کے پریس اور رہنماؤں کو سیخ پا ہونے کی بجائے حقائق کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے مسترد کرنے کی بجائے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے، اس لیے کہ گزشتہ ایک صدی کی تاریخ اس پر گواہ ہے اور عالمی منظر پر یہودیوں کی صہیونی تحریک جو کردار ادا کر رہی ہے وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ مہاتیر محمد کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے ایک مسلم ملک کے حکمران کی حیثیت سے اس کے کھلم کھلا اظہار کی جرأت کی ہے۔ جبکہ یہودیوں نے دنیا کے اجتماعی نظام پر مغرب کے وسائل اور اثر و رسوخ کے ذریعے جو کنٹرول حاصل کیا ہے اور مسلم حکومتوں کے گرد جو حصار قائم کر رکھا ہے اس کی موجودگی میں انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ کوئی مسلمان حکمران موجودہ حالات میں علی الاعلان یہ بات کہہ سکتا ہے جو مہاتیر محمد نے کہہ دی ہے۔ ورنہ دنیا کے نظام بلکہ امریکی سسٹم پر درپردہ یہودی کنٹرول کے بارے میں خود امریکہ میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اظہار مہاتیر محمد نے کیا ہے۔

یہودیوں نے گزشتہ ایک صدی کے دوران امریکہ میں اس ترقی یافتہ اور بڑے ملک کے وسائل اور ذرائع پر کنٹرول حاصل کرنے اور اقتدار کی اصل باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے جو کچھ کیا ہے اور اس وقت امریکہ کے سیاسی و معاشی نظام اور میڈیا سسٹم میں انہیں جو مقام حاصل ہے وہ کسی باشعور سے مخفی نہیں ہے۔ اور اسے کھلے بندوں دیکھتے ہوئے مہاتیر محمد کی بات کو جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ صرف اس قدر نہیں ہے جتنا مہاتیر محمد نے بیان کیا ہے بلکہ بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکی قیادت کسی عالمی لیڈر کے ریمارکس پر اپنی رائے ظاہر کرنے کے لیے بھی اسی دائرے میں محصور ہے جو یہودیوں نے اپنے مفادات کے لیے اس کے گرد قائم کر رکھا ہے۔

مہاتیر محمد کے اس بیان پر جو تبصرے مغرب کے پریس میں ہو رہے ہیں وہ اگر صہیونی تحریک کی طرف سے ہوتے تو کوئی اعتراض اور اشکال کی بات نہیں تھی کہ مہاتیر محمد نے اسے براہ راست ہدف تنقید بنایا ہے اور صہیونی تحریک کو اس کا جواب دینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جب صہیونی تحریک کا موقف امریکی پریس اور امریکی سینٹ کی زبان سے سامنے آتا ہے تو عقل و فہم رکھنے والا ہر شخص سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس کے لیے مہاتیر محمد کے ان ریمارکس کو درست تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ دنیا کی قیادت کا دعویٰ کرنے والی قوتوں کے پیچھے اصل میں یہودی سازشیں کارفرما ہیں اور مٹھی بھر یہودی پوری دنیا پر درپردہ حکومت کر رہے ہیں۔

جہاں تک یہودیوں کی مہارت، قربانیوں، جہد مسلسل اور اپنے مشن و ہدف کے لیے حوصلہ و استقامت کا تعلق ہے ہمیں اس میں کبھی کلام نہیں رہا۔ اور عالمی صہیونی تحریک نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران دنیا کے حالات کو تبدیل کرنے اور عالمی صورتحال کو اپنے ایجنڈے کے مطابق نیا رخ دینے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی داد نہ دینا سراسر نا انصافی ہوگی۔ بلکہ ہم تو مسلمانوں سے یہ گزارش کرتے رہتے ہیں کہ وہ یہودیوں کی اس جدوجہد کو اسٹڈی کریں، ان کے طریق کار سے واقفیت حاصل کریں اور ان کی ہمہ گیر محنت سے سبق سیکھیں۔ ابھی چند روز قبل امریکہ میں مسلمان دانشوروں کی ایک محفل میں راقم الحروف نے گزارش کی کہ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد یہودیوں سے زیادہ نہیں تو اب اتنی کم بھی نہیں رہی۔ مسلمانوں کی طرح یہودیوں کا مرکزِ عقیدت و محبت بھی امریکہ سے باہر ہے۔ مسلمانوں اور یہودیوں کا ایجنڈا مقامی یا علاقائی نہیں بلکہ عالمی ہے اور دونوں کو مغرب کے وسائل اور ذرائع تک رسائی کے مواقع میسر ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہودی اپنے عالمی ایجنڈے کے لیے مغربی ممالک کے وسائل اور ذرائع کو کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں مگر مسلمان ابھی تک سوچ بچار کے مرحل میں ہی ہیں۔ ہمارے نزدیک مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے سوچ بچار کا اصل نکتہ یہی ہے اور جس دن مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں نے اس راز کو پا لیا اس دن سے حالات میں تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔

بحث اس میں نہیں کہ یہودیوں نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیے کس قدر محنت کی ہے اور کتنی قربانیاں دی ہیں۔ یہ مسلمہ بات ہے اور اس سے انکار کرنا حقائق سے انکار کے مترادف ہے۔ البتہ یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ اس محنت اور قربانی کا جو صلہ وہ مانگ رہے ہیں کیا ان کا وہ حق بنتا ہے؟ اور اس محنت اور قربانی کے ذریعے جو کارنامے انہوں نے سرانجام دیے ہیں ان کا کوئی جواز ہے؟

  • یہودیوں نے سازشوں کے ذریعے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی سیاسی مرکزیت سے محروم کر دیا ہے،
  • مسلمانوں کے ملک فلسطین پر غاصبانہ قبضہ جمایا ہوا ہے،
  • خلیج عرب میں اپنی اور اپنے مغربی اتحادیوں کی فوجی قوت اور خوفناک عسکری طاقت کے سائے میں عرب عوام کی سیاسی آزادی اور خودمختاری میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں،
  • دنیا کے کسی حصے میں کوئی مسلم ملک سیاسی، معاشی یا عسکری طور پر خود کفالت کی منزل کی طرف بڑھنے لگتا ہے تو سب سے پہلے یہودیوں کے کان کھڑے ہوتے ہیں اور اس کا راستہ روکنے کے لیے عالمی سطح پر یہودی سازشیں متحرک نظر آنے لگتی ہیں،
  • اور بیت المقدس پر قبضے کے بعد ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے نام پر مدینہ منورہ سمیت بہت سے مسلم اور عرب علاقوں پر قبضے کے یہودی عزائم سامنے آچکے ہیں۔

اس سلسلہ میں سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہودیوں کا سب سے زیادہ قتل عام مسیحی اقوام نے کیا ہے اور گزشتہ صدیوں کے دوران یورپ کی مسیحی قوتوں کے ہاتھوں چھ ملین (ساٹھ لاکھ) یہودی بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق قتل ہوئے ہیں۔ مگر یہودیوں کو یہ سب بھول گیا ہے اور اگر یاد ہے تو صرف یہ کہ اب سے چودہ سو برس پہلے مسلمانوں نے انہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا اور خیبر پر قبضہ کر کے یہودیوں کو وہاں سے جلا وطن کر دیا تھا۔ مدینہ منورہ اور خیبر کی بستیوں سے جلاوطن ہونا یہودیوں کو اچھی طرح یاد ہے اور اسی وجہ سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے میں یہ دونوں شہر شامل ہیں، مگر یورپ کی مسیحی حکومتوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام انہیں ایسے بھول گیا ہے جیسے سرے سے ایسا کوئی واقعہ ہی رونما نہ ہوا ہو۔

دوسری طرف مسیحی دنیا کا حال یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ان کی دو ہزار برس سے چلی آنے والی دشمنی ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے۔ خود ان کے بقول یہودیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو سولی پر لٹکا دیا، ان کی والدہ محترم حضرت مریم علیہا السلام پر شرمناک الزام تراشی کی اور اپنے دور اقتدار میں مسیحیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ جبکہ یہودیوں کی اس الزام تراشی اور بیہودہ گوئی کا جواب قرآن کریم نے دیا اور حضرت مریمؑ کی پاکدامنی کی گواہی دینے کے ساتھ ساتھ حضرت عیسٰیؑ کی شان و مرتبہ کو بیان فرمایا۔ مگر اب یہ سارے حقائق قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور صرف ’’اسلام دشمنی‘‘ کی قدر مشترک باقی رہ گئی ہے جس نے دو ہزار سال کی دشمنی اور عداوت کو ختم کر کے مسیحیوں اور یہودیوں کو باہم شیر و شکر کر دیا ہے۔ (۱) مغربی ممالک کے تعاون اور پشت پناہی سے اسرائیل خلیج عرب میں جو کچھ گزشتہ نصف صدی سے کر رہا ہے (۲) فلسطینیوں اور عربوں کو کچلنے کے لیے اسرائیل کو مغربی ممالک کی جو امداد حاصل ہے (۳) اقوام متحدہ کے عالمی فورم پر عربوں اور مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی کھلی ہٹ دھرمی کو جس طرح امریکہ اور اس کے دوسرے ساتھی تحفظ فراہم کر رہے ہیں (۴) اور صرف امریکہ سے اسرائیل کو جو فوجی اور مالی امداد گزشتہ نصف صدی کے دوران ملی ہے اس کے شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں اور اس کے اعداد و شمار بھی مخفی نہیں ہیں۔

اگر اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے، اسرائیل کو مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے اور عالمی نظام کو درپردہ یہودی کنٹرول نہیں کر رہے تو پھر سچ، انصاف اور حقائق کی اصطلاحات کے معنی و مفہوم پر نظرثانی کرنا ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے ہاتھوں ان اصطلاحات کا معنی و مفہوم بھی کہیں بدل تو نہیں گیا ہے؟

قرآن کریم نے آج سے چودہ سو برس قبل یہودیوں کے بارے میں دو باتیں کہی تھیں جو اَب دنیا کے ہر شخص کو کھلی آنکھوں دکھائی دے رہی ہیں:

  1. ایک یہ کہ مسلمانوں کی دشمنی میں یہودی تمام اقوام سے آگے ہیں اور ان کی سرشت میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوت شامل ہے۔
  2. اور دوسری بات قرآن کریم نے یہ فرمائی ہے کہ یہودی کبھی دوسروں کے سہارے کے بغیر دنیا میں عزت اور اقتدار حاصل نہیں کر سکیں گے۔

آج قرآن کریم کی دونوں پیش گوئیاں عملی صورت میں دنیا کے سامنے ہیں اور تاریخ کا ہر موڑ اس کی گواہی دے رہا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ایک تاریخی اور معروضی حقیقت کا عالمی فورم پر اظہار کیا ہے تو مغرب کو اس پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے اور حقائق کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے یہودیوں کی بے جا ناز برداری کا رویہ ترک کر کے عالم اسلام کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو یہ اس بات کی ایک اور عملی دلیل ہوگی کہ ان کے معاملات خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ مٹھی بھر یہودی انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter