چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― ہندومت

   
تاریخ: 
۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! آج اس حوالے سے کچھ بات ہو گی کہ ہندو مذہب کیا ہے، اس کے ساتھ ہمارے معاملات کیا چلے آرہے ہیں، اور اس وقت ہم کس پوزیشن میں ہیں۔

ہندو مذہب کا آغاز کب ہوا، اس کی بنیادیں کیا ہیں، اور ان کے بنیادی عقائد کیا ہیں، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ہندو مذہب کی بنیاد اور بنیادی عقائد کے بارے میں کوئی متفقہ بات نہیں ملتی۔ عام طور پر اسے وطنی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں متحدہ ہندوستان میں رہنے والے لوگ ہندی اور ان کا مذہب ہندو مذہب کہلاتا تھا۔ بعض مذاہب نسلی ہیں جیسے یہودیت، اس طرح ہندو مت وطنی مذہب ہے کہ ہندوستان کے اندر رہنے والے ہندو ہیں۔

ہندو مذہب میں طرح طرح کے عقائد اور رسومات ہیں جن کا کوئی طے شدہ دائرہ نہیں ہے۔

ویدوں کا زمانہ عام طور پر اس کی ابتدا کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اسے ویدک عہد کہتے ہیں۔ ویدوں کو الہامی کتابیں سمجھا جاتا ہے، جو کہ چار ہیں۔ دور حاضر کے چند مسلم محققین

  1. مولانا شمس نوید عثمانیؒ انڈیا کے بڑے عالم تھے،
  2. موجودہ دور کے علماء میں مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی، جو مولانا منظور احمد نعمانیؒ کے بیٹے ہیں، اس محاذ پر سرگرم ہیں اور ویدوں کے بھی عالم ہیں۔
  3. اور مولانا کلیم صدیقی کی بھی ہندوؤں میں اسلام کی تبلیغ اور دعوت کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں، وہ بھی ویدوں کے عالم ہیں۔

مولانا شمس نوید عثمانیؒ اور دوسرے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اصلاً ویدیں کسی پرانے مذہب کی الہامی کتابیں لگتی ہیں۔ مولانا شمس نوید نے ”اگر اب بھی نہ جاگے تو“ نامی کتاب میں ویدوں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ وہ اسے حضرت نوح علیہ السلام کے باقی ماندہ افراد کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویدوں کا لہجہ، تعلیمات اور اسلوب آسمانی کتابوں جیسا ہے۔ ان میں توحید، وضو، نماز، اللہ کی عبادت اور روزہ وغیرہ کا ذکر ہے۔ اور ویدوں کا زمانہ بھی کم و بیش ایک ہزار سال قبل مسیح کا ہے۔ اس ویدک عہد سے پہلے ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔

اس کے بعد ہندو مذہب ہندوستان کے وطنی دائرے میں ہے لیکن ان کے عقائد آپس میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ جنوبی ہند کے اور ہیں، شمالی ہند کے اور ہیں، وسطی ہند کے اور ہیں۔ محاورہ بھی ہے کہ ”گنگا گئے تو گنگارام، جمنا گئے تو جمناداس“۔ رام اور داس دو مختلف مذاہب کی علامتیں ہیں، جو ان کے اندرونی مذاہب ہیں۔ ان کی پرانی تعلیمات کی اصطلاحات میں تنتر (ہدایت) اور پران (مذہبی نظمیں) ملتی ہیں۔ جیسے بائبل میں زبور شاعری کی زبان میں ہے۔ اور ہمارے ہاں بھی شاعری صحابہ کرامؓ کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ ان کی کتابوں میں بھگوت، گیتا، دیوتا اور دیوی ہیں۔

جس انسان کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس میں رام کی ذات حلول کر گئی ہے اور اس میں دیوتا کی صفت آگئی ہے، اسے مرد ہو تو دیوتا اور عورت ہو تو دیوی کہتے ہیں۔ برہمن، شیواجی اور وشنو مہاراج دیوتا ہیں، جبکہ مایہ اور لکشمی وغیرہ دیویاں ہیں۔ ان کا تصور حلول کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان میں حلول کر کے اپنی زیارت کرواتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی حلولی گروہ چلا آ رہا ہے، ہمارے بعض صوفیاء کے ہاں اس طرح کا تصور پایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ یہ کہ ہمارے قریب کے زمانے کے ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، انہوں نے خود اپنا قصہ سنایا کہ ایک زمانے میں سندھ کے علاقے میں ایک گاؤں میں گئے تو گاؤں کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کسی نے ان کو بتا دیا کہ اللہ پاک ایک بزرگ کی شکل میں آئے ہیں۔ لوگ آ کر کہنے لگے، آپ ہمارا یہ کام کر دیں۔ حضرت نے کہا کہ اللہ کے بندو میں تو انسان ہوں اور میرا نام عبد اللہ (اللہ کا بندہ) ہے۔ وہ کہتے، نہیں آپ اللہ ہیں انسانی شکل میں آئے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کبھی شکلیں بدل کر دنیا میں گھومتے ہیں۔

آج اس جدید دور میں بھی یہ تصور پایا جاتا ہے۔ امریکہ میں ”نیشن آف اسلام“ کے نام سے جو مذہب ہے سیاہ فاموں میں، آلیجا محمد نے ۱۹۳۴ء میں نبوت کا دعویٰ کیا،۔ اس سے پہلے ماسٹر فارد محمد نے ۱۹۳۰ء میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اور ایک مرکز بنایا۔ چار سال کے بعد وہ غائب ہوگئے اور آلیجا محمد اس کا جانشین بنا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ان کے باضابطہ عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ ماسٹر فارد محمد اصل میں اللہ تھے، چار سال ہماری اصلاح کرتے رہے، پھر آلیجا محمد کو اپنا جانشین بنا کر آسمانوں پر واپس چلے گئے۔ یہ تصور ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا رہا ہے۔

ہندوؤں کے ہاں بھی اوتار اور بھگوان کا تصور پایا جاتا ہے، ان کے ہاں مذہبی پیشوا کو پروبت کہا جاتا ہے۔ پروبت، پنڈت اور برہمن ان کی مذہبی پیشوائی کرتے ہیں۔ یہ مظاہر کے پجاری ہیں، ان کے کروڑوں دیوتا ہیں۔ ان کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت کسی بھی چیز میں دکھائی دے تو وہ خدا کی صفت کا مظہر ہے۔ کسی بھی چیز میں کوئی امتیازی صفت دیکھتے ہیں تو ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ذریعے جو خدا کی صفت کا اظہار ہے وہ ہمارا معبود ہے۔ ہم انہیں بت پرست کہتے ہیں کہ پتھر کی مورتی بنا کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔

ان کے بڑے پنڈت گزرے ہیں آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند سرسوتی، جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے معاصر تھے۔ ان کا آپس میں مکالمہ و مناظرہ بھی ہوا، تحریری مکالمہ بھی ہوا اور گفتگو بھی ہوئی، انہوں نے کتاب لکھی ”ستیارتھ پرکاش“۔ ہندو مذہب کو منظم رنگ میں پیش کیا، جیسے ہمارے ہاں حدیث کی کتاب ہوتی ہے، عقائد کا باب، عبادات کا باب، اخلاقیات کا باب، معاملات کا باب وغیرہ۔ اسی طرح اس کتاب میں ہندو نظام، ان کے خاندانی معاملات، نکاح، طلاق، تجارت، اور سیاست کو بیان کیا ہے۔ اس کے آخر میں چودھویں باب میں قرآن کریم اور اسلام پر ایک سو سے زیادہ اعتراضات کیے ہیں۔ اگر ہندو مذہب کا منظم اور ترقی یافتہ شکل میں مطالعہ کرنا ہو تو ”ستیارتھ پرکاش“ کا مطالعہ کریں۔

اس میں پنڈت دیانند سرسوتی نے ہم پر ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ آپ ہم پر اعتراض کرتے ہو کہ ہم پتھر کی پوجا کرتے ہیں، مسلمان بھی تو پتھر ہی کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم پتھر کی مورتی بنا کر اس کو پوجتے ہیں اور تم نے پتھر کا مکان بنا رکھا ہے خانہ کعبہ، اس کو پوجتے ہو۔ ہم مورتی کے گرد چکر کاٹتے ہیں تم مکان کے گرد چکر کاٹتے ہو۔ یہ بھی پتھر کا بنا ہوا ہے وہ بھی پتھر کا بنا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں مختلف علماء نے لکھا ہے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا رسالہ ہے ”قبلہ نما“ اس میں انہوں نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔

بہرحال مظاہر فطرت کی پوجا ان کا بنیادی مذہب ہے۔ ان مظاہر فطرت میں ان کے ہاں گائے سب سے مقدس چیز ہے، اسے گاؤماتا کہتے ہیں اور گائے کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ گائے جہاں سے چاہے کھائے پیئے اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی خصوصیات ”ولاتمسوھا بسوء“ (ھود ۶۴) وغیرہ کو گائے پر فٹ کیا ہوا ہے کہ یہ اللہ میاں کی گائے ہے،کوئی اسے تنگ نہیں کرے گا۔ گائے کی توہین کو بہت بڑا جرم سمجھتے ہیں۔ ہمارے بہت سے شہروں میں گاؤشالا کے نام سے آپ کو پرانی عمارتیں ملیں گی۔ گوجرانوالہ میں بھی ایک گاؤشالا تھا۔ یہ گائے کی حفاظت کے لیے ایک مستقل مرکز ہوتا تھا۔ ایک بڑی حویلی ہوتی تھی جہاں گائے کی حفاظت، خدمت اور دیکھ بھال کی جاتی۔ انڈیا میں اب بھی گاؤشالا عمارتیں ہیں۔

گائے کے نام پر وہاں فسادات بھی ہوتے ہیں۔ ویسے تو ان کے ہاں کسی بھی جانور کو ذبح کرنا درست نہیں ہے، لیکن گائے کو ذبح کرنا ان کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔ صرف حرام نہیں بلکہ توہین ہے، اس پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گائے کا پیشاب ان کے ہاں بڑی مقدس چیز ہے۔ گائے مُوت ان کے ہاں واقعتا اسی طرح ہے کہ اس کو وہ تقدس حاصل ہے جیسے ہمارے ہاں زمزم کو حاصل ہے۔ وہ اسے پیتے ہیں، جسم پر ملتے ہیں، جگہ عبادت کے لیے مخصوص کرنی ہو تو اس جگہ کو گائے کے گوبر اور پیشاب سے لیپ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ پاک ہو گئی ہے۔

اس پر کچھ عرصہ پہلے لندن میں ایک بحث چلی، وہاں کے اخبارات میں رپورٹ چھپی، میں نے بھی ماہنامہ الشریعہ میں نقل کی، وہ یہ کہ گائے کے پیشاب میں کیمیکلز ملا کر پیک کر کے کوکاکولا کی طرز پر کاؤکولا شروع کیا جو انڈیا میں بکتا بھی ہے اور اسے بڑے تبرک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایک اخبار نے گائے کے پیشاب کے طبی اور روحانی فوائد پر مضمون چھاپا۔ ایک مذاکرے میں بحث ہو رہی تھی کہ کیا پاکستان میں اس کی مارکیٹنگ کی گنجائش ہے۔ یہاں سے لطیفہ کی بات شروع ہوتی ہے، میں نے جواب دیا کہ مارکیٹنگ کی تو گنجائش نہیں ہے لیکن سپلائی کی گنجائش پیدا کر لیں گے، گائے کا پیشاب جتنا کہو مہیا کریں گے۔ اس نے پوچھا، مولوی صاحب! یہ جائز ہے؟ میں نے کہا حضرت امام شافعیؒ کا موقف ہے بول ”ما یؤکل لحمہ طاہر“ بلکہ یہ ہمارے امام محمدؒ کا قول بھی ہے۔ یہ میں نے دل لگی کی بات کی، فتویٰ کی بات نہیں کر رہا۔ بہرحال ان کے ہاں گائے کے پیشاب کو تقدس حاصل ہے۔ اس دور میں ان باتوں پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا لیکن یقین کرنا پڑتا ہے۔ پیشاب سے بڑھ کر پنج گیّا (گائے کی پانچ چیزیں) بھی ہندو استعمال کرتے ہیں۔ اس میں گائے کا (۱) پیشاب (۲) گوبر (۳) خون (۴) تھوک (۵) اور ناک کی رطوبت، یہ پانچ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ ان کو ملا کر معجون سی بناتے ہیں اور کسی کو ہندو بنانے کے لیے یہ چٹاتے ہیں۔ بچے کو اسی کی گھٹی دیتے ہیں اور یہ بڑی برکت کی چیز سمجھی جاتی ہے۔ یہ ان کے مذہب کی بڑی بڑی علامتیں ہیں۔

ان کے ہاں ایک بڑا مسئلہ تناسخ کا ہے۔ ان کے ہاں جزا سزا کا تصور موجود ہے لیکن اس کی عملی شکل یہ ہے کہ روح فنا نہیں ہوتی، روح انسان کے جسم میں ایک جنم گزارتی ہے، جب وہ اس سے نکل جاتی ہے تو اسے ایک نیا جسم دیا جاتا ہے، نئے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے، جنم بدلتی رہتی ہے۔ اس کو تناسخ کہتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ سم نئے سیٹ میں ڈال دی ہے۔ آپ نے محاورہ سنا ہو گا ”جنم جنم کا ساتھ“۔ اسی طرح اگلے جنم میں ملیں گے، رام اگلے جنم میں ملا دے۔ اس کی وجہ یہی عقیدہ ہے یہ ساری باتیں اس تناسخ کے عقیدے پر مبنی ہیں۔ ان کے ہاں نیکی اور بدی کے تصور کے مطابق اگر زندگی اچھی گزاری ہے تو اگلا جنم بہتر ملتا ہے۔ پہلے جانور کی شکل میں تھا، دوسرے جنم میں انسانی شکل میں آجائے گا۔ پہلے شودر تھا تو اب برہمن کی شکل میں آجائے گا۔ یعنی پہلے سے اچھی صورت مل جاتی ہے۔ اور اگر بری زندگی گزاری ہے اور سزا کا مستحق ہے تو انسان کسی جانور مثلاً سانپ، کتے، گدھے کی شکل میں اگلے جنم میں آجائے گا۔ جنم کا بدلنا اور بہتر یا بری شکل میں آنا سزا جزا کا تصور ہے۔ تناسخ کا عقیدہ ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔

یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ جدید ہندو سوسائٹی نے مذہبی پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ اب تو ہندوستان میں قوانین سیکولر ہیں، پرانے مذہبی معاشرتی قوانین سے دستبرداری اختیار کر رکھی ہے، ان کے مذہبی رہنما مذہبی و معاشرتی روایات پر اسٹینڈ نہیں لے رہے۔ یہاں ہم سے بھی تقاضا ہے کہ معاشرتی قوانین میں مذہب سے دستبرداری اختیار کرو، مذہب کو عبادات کے دائرے میں محدود رکھو۔ ہم یہ نہیں کر رہے اور ہم اسٹینڈ لیے ہوئے ہیں۔

بہرحال ہندوستان میں بعض مذہبی روایات پر اب بھی عمل ہوتا ہے جن میں مثلاً یہ کہ ان کے ہاں طلاق کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے، نکاح جو ہو گیا تو اب ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہو گیا۔ خاوند کے فوت ہونے کے بعد بھی بیوی کو مذہبی طور پر نئے نکاح کی اجازت نہیں ہے، خواہ وہ جوان عورت ہو۔ اگلے جنم میں اسی کی بیوی ہو گی۔ خاوند کے مرنے سے بھی نکاح ختم نہیں ہوتا اور عورت کے لیے دو آپشن ہوتے ہیں:

  1. باقی ساری زندگی خاوند کے گھر میں ایک خادمہ یا نوکرانی کی شکل میں گزار دے۔ سوگ کی کیفیت میں رہے گی کہ خوشبو نہیں لگائے گی، اچھے کپڑے نہیں پہنے گی، زینت اختیار نہیں کرے گی۔
  2. دوسرا اْن کے ہاں عزیمت کا مقام یہ ہے کہ خاوند کی لاش جب جل رہی ہو عورت اس آگ میں کود کر جان دے دے۔ اس کو ستی ہونا (قربان ہونا) کہتے ہیں اور اس کو بہت بڑا درجہ دیا جاتا ہے، شہادت ہی کا درجہ سمجھتے ہیں۔ اب آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت نے قانوناً اس پر پابندی لگا رکھی ہے کہ کوئی عورت ایسا نہیں کر سکتی، لیکن اس کے باوجود دوردراز علاقوں میں ایسے ہو جاتا ہے کہ عورت خاوند کی چتا (جلتی ہوئی لاش) پر ستی ہو جاتی ہے۔ ستی ہو جانے کی ان کے ہاں بڑی معروف روایت ہے۔

ان کے ہاں جو بڑا مسئلہ ہے وہ ہے ذات پات کا مسئلہ۔ سوسائٹی میں چار درجے ہیں اور چاروں کی درجہ بندی، احکام اور دائرے الگ ہیں:

  1. سب سے اعلیٰ درجہ کی ذات برہمن کی ہے جو برہما کی طرف منسوب ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ شاید حضرت ابراہیمؑ کی طرف نسبت ہے اور یہ ابراہیمی مذہب کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بہرحال یہ قیاس آرائیاں ہیں۔ برہمن کے کام کا بنیادی دائرہ علمی اور مذہبی ہے۔ تعلیم اور مذہب برہمن کے اختیارات اور فرائض میں سے ہے کہ وہ کس حد تک علم حاصل کرتے ہیں اور کتنا دین سکھاتے ہیں۔ پنڈت برہمنوں میں سے ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام مذہبی رسومات ادا کرنا اور مذہب کی تعلیم دینا ہوتا ہے۔ سب سے برتر اور مقدس یہ طبقہ سمجھا جاتا ہے۔
  2. دوسرے نمبر پر کھشتری ہیں۔ ان کا کام حکمرانی، فوج، پولیس، انتظامیہ، اور مملکت کے اجتماعی کام سرانجام دینا ہوتا ہے۔
  3. تیسرے نمبر پر ویش کی ذات ہے۔ تجارت و زراعت وغیرہ کرتے ہیں۔
  4. سب سے نچلی اور حقیر ذات شودر کی ہے۔ ان کے ذمے صرف خدمت کے کام ہیں۔ اوپر والے طبقوں کی خدمت کے کام کرنا۔ اور حیثیت ان کی یہ ہے کہ ان کے ساتھ برابر نہیں بیٹھ سکتے ہیں، ان سا لباس نہیں پہن سکتے، ان جیسا طور طرز اختیار نہیں کر سکتے۔ شودر کسی برہمن سے مصافحہ بھی نہیں کر سکتا، اگر ہاتھ ملا لے تو برہمن کے ہاتھ پلید سمجھے جاتے ہیں۔ اس ذات پات کے فرق سے نفرت کرتے ہوئے بابا گرو نانک نے ہندو مذہب چھوڑ دیا تھا۔ یہ ذات پات کا فرق اب بھی موجود ہے اگرچہ قانوناً ختم کر دیا گیا ہے۔ معاشرتی فرق تو ہمارے ہاں بھی ہے، چوہدری اور کمّی کا لیکن یہ معاشرتی ہے، مذہبی نہیں ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود مذہبی طور پر آج بھی الحمد للہ عید اور جمعے کے موقع پر کوئی فرق نہیں برتا جاتا۔ کوئی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم کمّی ہو پیچھے کھڑے ہو۔ وہ آگے کھڑا ہے تو چوہدری پیچھے ہی کھڑا ہو گا۔ یہ تو تھیں ان کی بطور مذہب کے چند علامات۔

ہمارے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ مسلمانوں کے ساتھ ان کی کشمکش کا باقاعدہ آغاز تب ہوا تھا جب محمد بن قاسمؒ سندھ پر حملہ آور ہوئے تھے اور سندھ میں ان کا مقابلہ راجہ داہر سے ہوا تھا۔ محمد بن قاسمؒ نے راجہ داہر کو شکست دے کر سندھ اور ملتان تک کا علاقہ فتح کیا۔ پھر ہمارے دوسرے بڑے فاتح سلطان محمود غزنویؒ جب آئے تو ان کی جنگیں بھی ہندوؤں سے ہوئیں اور سومنات مندر تک پہنچتے ہوئے سترہ حملے کیے۔ سترہویں حملے میں غزنوی کو کامیابی ہوئی۔ اس کے بعد سلطان شہاب الدین غوریؒ، قطب الدین ایبکؒ، پھر بابرؒ۔ ان کے ساتھ ہماری جو آخری بڑی جنگ ہوئی وہ احمد شاہ ابدالیؒ ہوئی مرہٹوں کے ساتھ ہوئی۔

متحدہ ہندوستان میں اسلام تین راستوں سے آیا ہے:

  1. ایک تو محمد بن قاسمؒ اور محمود غزنویؒ وغیرہ فاتحین کے ذریعے۔
  2. مشرقی ہند بمبئی وغیرہ میں عرب تاجروں کے ذریعے اسلام آیا۔
  3. اور وسطی ہند میں اسلام صوفیاء کے ذریعے آیا، خواجہ معین الدین اجمیری، سید علی ہجویری، شاہ محمد غوث وغیرہ صوفیاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہاں آ کر ماحول بنایا اور اسلام کا سبب بنے۔

مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی ہے، آٹھ سو سال تو مغلوں نے کی ہے، ان سے پہلے قطب الدین ایبکؒ، شیر شاہ سوریؒ نے حکومت کی۔ لیکن ہم نے یہاں حکومت کی ہے طاقت کے زور سے۔ اس زمانے کا اصول ہی یہی تھا کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ قبضہ کر لیتا۔ ہمارے پاس جب تک طاقت رہی ہم نے حکومت کی۔

جب انگریز آیا تو ہم دونوں مغلوب ہو گئے۔ ہماری پرانی فقہی بحثوں میں ایک بحث چلتی ہے کہ ہندوستان کی کون سی زمین عشری ہے اور کون سی خراجی ہے۔ جو ہم نے غلبے سے قبضہ کیا ہے اس زمین کا حکم الگ ہے، اور جو علاقہ از خود مسلمان ہو کر شامل ہو گیا اس کا حکم الگ ہے۔ یہ ساری بحثیں ہماری تب تک تھیں جب ہم غالب تھے اور ہندو مغلوب تھے۔ انگریز کے آنے کے بعد ہم دونوں مغلوب ہو گئے تھے، ہماری پہلے والی پوزیشن نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد انگریز کے خلاف جو ہم نے آزادی کی جنگ لڑی تو ہم نے مل کر لڑی۔ اب نئے فقہی احکام غالب مغلوب کے پرانے دائرے میں نہیں ہوں گے بلکہ معاہد کے دائرے میں ہوں گے کہ ہم نے مل کر انگریز سے آزادی حاصل کی ہے، اب ان کا حکم ذمی کا نہیں ہوگا، معاہد کا ہو گا۔

۱۸۲۰ء، ۱۸۲۱ء میں دہلی پر انگریزوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اقتدار قائم ہو گیا تھا، تب سے صورتحال بدل گئی ہے۔ اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے۔

  1. ایک حصہ، جس کی قیادت سر سید احمد خان مرحوم کر رہے تھے، نے کہا کہ اب ہم مسلم ہندو ایک پوزیشن میں آگئے ہیں تو ہمیں اپنا تشخص تسلیم کرانا چاہیے۔ اپنے آپ کو الگ ایک قومیت کا رنگ دینا چاہیے کیونکہ آئندہ فیصلے ووٹ کے ذریعے ہوں گے اور اس میں جس کی اکثریت ہو گی اس کی حکومت ہو گی، اس لیے ہمیں اس میں ضم ہونے سے بچنے کے لیے اپنا تشخص قائم کرنا چاہیے۔ سر سید سے بہت سے معاملات میں اختلاف ہے لیکن دو معاملات میں سر سید نے جو جنگ لڑی ہے:
    • ایک مسلمانوں کا الگ تشخص منوانے کے لیے کہ ہم مستقل قوم ہیں،
    • اور دوسرا سر سید نے اردو کے لیے جنگ لڑی۔

    اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی اور ہندی ہندوؤں کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ مدراس میں ہندی یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد سر سید نے محنت کی کہ اردو کو بچانا ضروری ہے، ہمارا تشخص اردو کے تشخص کے ساتھ باقی رہے گا۔ یہ بھی گروہ کا موقف تھا کہ آنے والا دور چونکہ سیاست کا ہے، جمہوریت اور ووٹ کا ہے، اس لیے ہمیں اکثریت کے سامنے سرنڈر ہونے کی بجائے اپنا تشخص الگ منوانا چاہیے۔ جداگانہ قومیت، دو قومی نظریہ جو بالآخر ”نظریہ پاکستان“ پر منتج ہوا، اس کے پیچھے سوچ یہ تھی۔

  2. جبکہ دوسری سوچ یہ تھی کہ ہم نے ایک ہزار سال حکومت کی ہے، آئندہ بھی حکومت ہم ہی کریں گے اور یہاں حکومت میں ہمارا حصہ برابر ہوگا تو ہمیں الگ نہیں ہونا چاہیے، اس سے نقصان ہو گا۔

یہ دو الگ الگ نقطہ نظر تھے۔ ہمارے اکابر علماء بھی دو حصوں میں تقسیم تھے:

  • حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ وغیرہم کا موقف یہ تھا کہ ہم ساتھ رہ کر آپس میں معاملات کر کے بہتر طور پر چل سکتے ہیں۔
  • جبکہ حضرت تھانویؒ اور ان کے رفقاء کا موقف یہ تھا کہ نہیں، ہم ہندو اکثریت سے مغلوب ہو جائیں گے، اس سے بچنے کے لیے الگ ملک چاہیے۔ اس میں یہ بعد والا موقف غالب آگیا، اس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔

حضرات علماء کرام! ہندو مذہب کی چند تعارفی باتیں اور ہندو قوم کے ساتھ مسلم معاملات جو چلتے آرہے ہیں اس کا ایک ہلکا سا خاکہ آج میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ایک بات یہ کہ ہندو مذہب دعوتی مذہب نہیں، وطنی مذہب ہے۔ جو ہندوستان کا ہے وہ ہندو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے جو لوگ مسلمان یا عیسائی ہو گئے ہیں انہیں واپس ہندو ہو جانا چاہیے، یہ ان کی شدھی تحریک کہلاتی ہے، ہندوستان سے باہر کے کسی آدمی کو یہ ہندو ہونے کی دعوت نہیں دیتے۔

2016ء سے
Flag Counter