توہینِ رسالت کی سزا ختم کرنے کا مغربی مطالبہ

   
مئی ۲۰۰۲ء

توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے خلاف مغربی ممالک کی طرف سے دباؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے قبل امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے بارے میں مطالبات موجود ہیں، جن میں ان قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اور اب ایک اور مغربی ملک سوئٹزرلینڈ بھی اس مہم میں شامل ہو گیا ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۹ اپریل ۲۰۰۲ء کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ جوزف ڈائیس نے اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ عبد الستار اور وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں توہینِ رسالتؐ قانون کے تحت سزاؤں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مغربی ممالک اور ادارے توہینِ رسالتؐ کے تحت کسی بھی قسم کی سزا کو انسانی حقوق کے منافی تصور کرتے ہیں، اور اس قانون کو تبدیل کرنے کا ایک عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو آخر کس طرح حقوق کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے کہ اس میں مداخلت کو ان کے حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، حضرات انبیاء کرامؑ اور دینی شعائر کی بے حرمتی کو خود بائبل میں بھی جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ لیکن مغربی ممالک خود کو بائبل کے احکام سے بالاتر قرار دینے کے بعد اب مسلمانوں سے چاہتے ہیں کہ وہ بھی قرآنی تعلیمات سے دستبردار ہو جائیں۔ اور جس طرح مغرب کی مسیحی حکومتوں نے بائبل کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا ہے اسی طرح مسلمان بھی قرآن کریم کو محض تقدس اور تبرک کے درجہ میں رکھتے ہوئے اس کے عملی احکام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیں (نعوذ باللہ) لیکن یہ اسلام کے زندہ اور حق مذہب ہونے کی دلیل ہے کہ مغرب مسلمانوں کو ان کی تمام تر بے عملی بلکہ بد عملی کے باوجود اس بات کے لیے صدیوں کی کوشش کے باوجود تیار نہیں کر سکا اور نہ ہی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ کبھی ایسا کر سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter