۱۵ اپریل کو صبح نمازِ فجر کے بعد سرگودھا، خوشاب، میانوالی اور بنوں کے جماعتی سفر کے لیے پایۂ رکاب تھا کہ فون کے ذریعہ یہ روح فرسا خبر ملی کہ جمعیۃ علمائے اسلام ضلع بہاولپور کے امیر خان غلام سرور خان انتقال کر گئے ہیں اور دس بجے دن بہاولپور میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے رہی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نمازِ جنازہ کے لیے دس بجے تک بہاولپور پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لیے دکھی دل کے ساتھ طے شدہ سفر پر روانہ ہوگیا۔
غلام سرور خان مرحوم ایک عرصہ سے بیمار تھے، فالج کے ساتھ دل کا عارضہ بھی لاحق تھا اور تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران پولیس کے وحشیانہ تشدد سے ان کا بازو بھی ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن ان عوارض کے باوجود اس مردِ قلندر کا دل جوان تھا اور بیماریوں کا ہجوم اپنے مشن کے ساتھ اس کی وارفتگی کو مضمحل نہیں کر سکا تھا۔ گزشتہ ماہ دارالعلوم اسلامی مشن بہاولپور کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے حاضری ہوئی تو خان غلام سرور خان ہسپتال میں تھے۔ مولانا سیف الرحمان درخواستی اور ڈاکٹر غلام مصطفٰی کے ہمراہ ہسپتال حاضر ہوا۔ خان غلام سرور خان کو دیکھا، حال احوال پوچھا لیکن اس مردِ درویش کو حال احوال بتانے کی فرصت کہاں تھی۔ ہم ان سے صحت کا حال پوچھتے رہے اور وہ اس مختصر ملاقات کو غنیمت جانتے ہوئے شریعت بل کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوسوں کے احوال بتاتے رہے اور شریعت بل کی منظوری کے لیے مختلف تجاویز سے آگاہ کرتے رہے۔ دورانِ گفتگو کئی بار کھانسی کا دورہ پڑا، میں نے گفتگو کا رخ بدلنے ک کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ہڈیوں کے اس ڈھانچے کے دماغ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ شریعت بل کی منظوری کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے ورنہ سلسلۂ ملاقات کو کچھ دراز ہوجانے دیتا۔ میں نے تو خان غلام سرور خان مرحوم کی تکلیف کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو کا سلسلہ درمیان میں منقطع کیا اور بمشکل اجازت لے کر چلا آیا۔ اللہ تعالیٰ اس مردِ درویش کو بے پناہ رحمتوں سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
غلام سرور خان مرحوم ایک جرأت مند، جفا کش، ایثار پیشہ اور معاملہ فہم رہنما تھے۔ انہیں اللہ رب العزت نے فہم و فراست اور جرأت و ایثار کے اوصاف سے نوازا تھا اور انہوں نے ان اوصاف سے جمعیۃ علمائے اسلام او رنفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے بے دریغ کام کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ غلام سرور خان مرحوم ان چند افراد میں سے تھے جنہیں کسی بڑے سے بڑے اور مشکل کام کے بارے میں صرف پیغام دے کر ہم مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ یہ کام اب بہرحال ہو جائے گا۔ جماعتی معاملات میں ان کی رائے ٹھوس اور دوٹوک ہوتی تھی اور وہ صرف رائے کے اظہار پر قانع نہیں رہتے تھے بلکہ اس پر دوسروں کو قائل کرنے اور اسے منوانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے۔ حالیہ جماعتی اختلافات کے دور میں سرور خان مرحوم نے جس پامردی اور استقلال کے ساتھ حضرت درخواستی مدظلہ العالی کا ساتھ دیا وہ انہی کا حصہ تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ان کی استقامت نے بہت سے مایوس دلوں کو حوصلہ بخشا۔
خان غلام سرور خان مرحوم کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے لیکن بنوں کے سفر کے بعد حیدرآباد اور کراچی کے اچانک سفر اور فیصل آباد کی نظامِ شریعت کانفرنس کے باعث ابھی تک بہاولپور نہیں جا سکا۔ اللہ تعالیٰ خان غلام سرور خان مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں، آمین یا رب العالمین۔