سیدنا حضرت موسٰی علیہ السلام کو جب اللہ تعالٰی نے کوہ طور پر نبوت سے سرفراز فرمایا اور بنی اسرائیل کی راہنمائی اور آزادی کی ذمہ داری سونپی تو حضرت موسٰیؑ نے اللہ رب العزت سے درخواست کی کہ میرے بھائی ہارونؑ کو بھی نبوت عطا فرما کر میرا مددگار بنا دیں۔ اس کی ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ ’’ھو افصح منی لساناً‘‘ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے اور لوگوں کو بات سمجھانے میں میرا اچھا مددگار ثابت ہوگا۔ حضرت موسٰیؑ کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے انہیں مسلسل بات کرنے میں دقت ہوتی تھی اور اسی لیے انہوں نے نبوت ملنے کے لمحہ میں اپنے لیے یہ دعا کی تھی کہ ’’واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی‘‘ اے اللہ! میری زبان کی لکنت دور کر دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اور حضرت موسٰیؑ کی زبان کی اسی لکنت کو فرعون نے یوں تعبیر کیا تھا کہ ’’ولا یکاد یبین‘‘ وہ تو واضح بات بھی نہیں کر سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت و دعوت اور اصلاح و تبلیغ کے لیے فصاحت بھی اہم ضروریات میں سے ہے جس کے بغیر ہدایت اور دعوت و اصلاح کا فریضہ اچھے طریقے سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ حضرات انبیاء کرامؑ نسل انسانی میں سب سے زیادہ فصیح بزرگ گزرے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کو تو ان کے معاصر مشرکین نے جادو سے تعبیر کیا تھا۔ خود آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ان من البیان لسحرا‘‘ بے شک بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جناب نبی اکرمؐ نے خود فصیح اللسان بلکہ افصح ہونے کے باوجود دین کے بعض معاملات میں فصاحت و بلاغت کے حامل دیگر حضرات سے کام لیا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی کارکردگی کی تعریف فرمائی ہے۔
پیغمبر کی سب سے بڑی ذمہ داری ان لوگوں تک اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچانا اور اس پیغام کا مقصد و مفہوم سمجھانا رہا ہے جن کی طرف وہ مبعوث ہوئے۔ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں وہ تمام میسر ذرائع اس کے لیے استعمال کیے ہیں جن کا شریعت اور اخلاقیات کے دائرے میں جواز اس دور میں تسلیم شدہ رہا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ابلاغ اور تفہیم کے بڑے ذرائع میں خطابت اور شاعری کو اہم مقام حاصل تھا، جبکہ تجارتی میلے ابلاغ عامہ کے بڑے مراکز ہوتے تھے۔ اس لیے جناب رسالتمآبؐ نے تجارتی میلوں کی سہولت سے خوب فائدہ اٹھایا اور عکاظ اور ذی المجنۃ کے میلوں میں ہونے والی دیگر خرافات کو نظرانداز کرتے ہوئے دعوتی مقاصد کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ اسی طرح شاعری کو قرآن کریم میں اگرچہ جناب نبی اکرمؐ کے حوالے سے ’’وما ینبغی لہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ آپؐ کے شایانِ شان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرتؐ نے شاعری کو دینی مقاصد کے لیے بھرپور طریقہ سے استعمال کیا اور شاعر صحابہ کرامؓ کو آپؐ پر کافروں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب کے لیے میدان میں آنے کے لیے کہا۔ چنانچہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور حکم پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت و شاعری کا محاذ سنبھال کر اسلام کی دعوت اور کفر کے مقابلہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ابلاغ اور تفہیم کے بڑے ذرائع شاعری اور خطابت تھے اور اس کے بڑے مراکز تجارتی میلے تھے جنہیں آنحضرتؐ نے نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کی تمام تر قباحتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں دینی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا۔ غزوۂ خندق میں مشرکین کے متحدہ محاذ کی شکست کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے دو اہم اعلانات فرمائے تھے:
- ایک یہ کہ اب قریش کو ہم پر حملہ کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی موقع ملا ہم ان پر حملہ آور ہوں گے۔
- اور دوسرا اعلان یہ فرمایا کہ اب یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف تلوار کی جنگ نہیں لڑ پائیں گے اور اب ان کی جنگ ہمارے خلاف زبان کی ہوگی کہ شعر و شاعری کا محاذ گرم کر کے نفرت پھیلائیں گے اور عربوں میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کریں گے۔
میں اس کو یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ گویا جناب نبی اکرم نے اعلان کیا کہ اب مشرکین مکہ اور ان کے ساتھ ہماری جنگ ہتھیاروں سے نہیں ہوگی بلکہ ’’میڈیا وار‘‘ ہوگی اور یہ ہمارے خلاف خطابت اور شاعری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، مختلف قبائل کے شعراء اور خطباء نے اسلام اور جناب رسول اللہؐ کے خلاف بدزبانی اور ہجوگوئی کا بازار گرم کر دیا جس پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ میدان میں اترے اور اس ’’میڈیا وار‘‘ میں کفر کی دنیا کو میدان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
بنو تمیم کے وفد کا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ وہ جب مدینہ منورہ آئے تو نبی کریمؐ سے انتہائی نخوت کے ساتھ کہا کہ پہلے آپ ہمارے شاعروں اور خطیبوں کا مقابلہ کیجئے، پھر ہم آپ سے اسلام کی بات سنیں گے۔ اس پر مدینہ منورہ میں مقابلہ کی محفل جمی اور بنو تمیم کے خطیب نے اپنی خطابت کے جوہر دکھائے اور ان کے شاعر نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تو جواب میں آنحضرتؐ کے حکم پر حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت میں اسلام کی خوبیاں بیان کیں اور حضور علیہ السلام کی منقبت و مدحت کی سعادت حاصل کی۔ جس کے بعد بنو تمیم کے وفد نے اپنی شکست کا اعتراف کیا اور یہی واقعہ ان کے قبولِ اسلام کا باعث بن گیا۔
اس پس منظر میں میری علماء کرام، دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سے ہمیشہ یہ گزارش ہوتی ہے کہ ہر دور کا میڈیا دوسرے دور سے مختلف ہوتا ہے اور ابلاغ کے ذرائع الگ ہوتے ہیں۔ کسی دور میں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کا تصور بھی نہیں ہوتا تھا مگر آج ابلاغ اور ذہن سازی کے سب سے بڑے ذرائع یہی ہیں اور کسی بھی ملک کی رائے عامہ کو کسی بات پر قائل کرنے کے لیے ان ذرائع ابلاغ کو نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ صحافت کو آج کے ذرائع ابلاغ میں اہم حیثیت حاصل ہے اور صحافت صرف کسی زبان میں چند سطریں لکھ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل فن ہے۔ اس میں زبان کی مہارت و فصاحت بھی شامل ہے، لوگوں کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق بات کرنے کا اسلوب بھی اس کا حصہ ہے اور مختلف طبقوں کے ذہنی دائروں تک رسائی حاصل کر کے ان کی ذہن سازی کی مؤثر تکنیک پر عبور بھی اس کا اہم شعبہ ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ان امور کی طرف دینی حلقوں اور بالخصوص علمی مراکز کی سرے سے توجہ ہی نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایک دینی مدرسہ میں طلبہ سے بات ہو رہی تھی کہ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ ہمیں عربی زبان میں مضمون لکھنے کی تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟ میں نے الٹا سوال کر دیا کہ کیا آپ کو اردو میں آج کے اسلوب کے مطابق مضمون لکھنے کی مہارت حاصل ہوگئی ہے؟ اس سوال کا اس غریب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عربی اور انگلش میں خطابت اور مضمون نویسی کی تربیت و مشق ہماری دینی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو اردو میں اور آج کی صحافتی زبان میں چار سطریں صحیح طریقہ سے لکھنے کا ڈھنگ آتا ہو۔ اور ہم کم از کم پرنٹ میڈیا کی اس ابتدائی اور نچلی سطح پر ہی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قدرت رکھتے ہوں۔
صحافت کے مختلف شعبے اور دائرے ہیں۔ ایک دائرہ مضمون نویسی کا ہے کہ ہم اپنے موقف کے مؤثر اظہار کے لیے کوئی جاندار مضمون تحریر کر سکیں۔ ایک دائرہ رپورٹنگ کا ہے کہ ہم اپنے اجلاسوں اور کانفرنسوں کی معیاری رپورٹنگ کر سکیں۔ ایک دائرہ خطوط نویسی ہے کہ کم از کم مدیر کے نام خط کے شعبہ میں ہی خط کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں۔ ایک مرحلہ کالم نویسی کا ہے کہ مؤثر کالم نویسی تک ہماری رسائی ہو تاکہ ہم رائے عامہ کی اسلام کے حق میں ذہن سازی کے لیے کردار ادا کر سکیں، وغیرہ ذٰلک۔ جبکہ صحافت کی اعلٰی اور معیاری سطح اس سے کہیں آگے اور بالاتر ہے۔
ہمارے ہاں ہر دور میں دینی جرائد شائع ہوتے رہے ہیں اور اپنے دائروں میں مؤثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ میں خود جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کا سالہا سال تک مدیر رہا ہوں۔ لیکن میڈیا کی آج کی ہمہ گیر یلغار اور صحافت کے بے پناہ پھیلاؤ کے اس دور میں صرف اتنا کافی نہیں ہے، اس کی اہمیت اور دینی ضرورت کا صحیح طور پر اندازہ کرنا ہو تو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے ان مضامین کو ایک نظر دیکھ لیا جائے جو انہوں نے اس حوالہ سے انتہائی پرسوزی اور دردِ دل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔ اس صورتحال میں مجھے ہفت روزہ ضرب مومن اور روزنامہ اسلام کو صحافت کے میدان میں دیکھ کر اس لحاظ سے دوہری خوشی ہوتی ہے کہ کسی نے اس سمندر میں چھلانگ تو لگائی ہے اور ان دو جریدوں نے تو صرف خود چھلانگ نہیں لگائی بلکہ وہ اپنے عمل و کردار سے دوسروں کو بھی اس سمندر میں کودنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
شیخ المشائخ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے ساتھ میری عقیدت و محبت کے بہت سے دیگر پہلو بھی ہیں لیکن دو حوالوں سے یہ عقیدت و محبت انتہا کو چھونے لگتی ہے:
- ایک یہ کہ اس مرد قلندر نے علماء کرام اور دینی حلقوں کے صحافت کے میدان میں کودنے کی راہ عملاً ہموار کر کے حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنایا ہے۔
- اور دوسرا یہ کہ خدمت خلق کے رفاہی میدان میں منظم، مربوط اور مسلسل کام کی بنیاد رکھ کر دینی حلقوں کو خدمت دین اور ملی خدمات کا ایک وسیع میدان فراہم کیا ہے۔
ہفت روزہ ضرب مومن اور روزنامہ اسلام یقیناً ہماری آخری منزل نہیں ہیں کہ ’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘ لیکن یہ کیا کم ہے کہ ہفت روزہ ضرب مومن پندرہ سال سے اور روزنامہ اسلام دس سال سے اپنا سفر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پورے عزم و استقامت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں، نئی نسل میں لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو رہا ہے، لکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسلامی صحافت کو نیا اور تازہ خون مل رہا ہے۔