سپریم کورٹ میں قادیانیوں کے بارے میں کیس پر چیف جسٹس محترم نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک محترم جج نے کسی کیس کے فیصلہ میں قادیانیوں کو مسلمانوں کا فرقہ لکھنے کے بعد عوامی احتجاج کے باعث کیس پر نظرثانی کر کے ریمارکس کو حذف کر دیا ہے۔ اور اب ملک کے معروف صحافی اور دانشور محترم جناب مجیب الرحمٰن شامی نے ایک نشری گفتگو میں قادیانیوں کے مبینہ شہری حقوق کا سوال اٹھا کر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی منیب الرحمٰن سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مل کر کوئی فیصلہ کریں۔
ان واقعات کا تسلسل بتا رہا ہے کہ قادیانی مسئلہ ایک بار پھر قومی سطح پر زیربحث آ رہا ہے اور اس کا ایک نیا راؤنڈ شروع ہو چکا ہے۔ جس پر تحفظِ ختمِ نبوت کے مشن پر کام کرنے والی جماعتوں کو سنجیدہ توجہ دینا ہو گی اور کوئی مشترکہ موقف اور لائحۂ عمل ازسرِنو طے کرنا ہو گا۔
قادیانی مسئلہ کا اب تک کا تسلسل یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو خدا کا نبی اور ان کی تعلیمات کو خدا کی وحی تسلیم کرنے کی وجہ سے قادیانیوں کو امتِ مسلمہ کی تمام دینی قیادتوں نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ جبکہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء کے متفقہ فیصلہ کے ذریعہ قادیانیوں کو مسلم امہ کا حصہ تسلیم کرنے کی بجائے غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے کر انہیں ملک کی دیگر غیر مسلم آبادیوں کی طرح غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ جسے قادیانی تسلیم نہیں کر رہے بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسلمان تسلیم نہ کرنے والے تمام لوگ ان کے نزدیک کافر ہیں۔ دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد جب قادیانیوں نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے سے دوٹوک انکار کر کے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے اور اسلام کے نام پر تمام سرگرمیاں جاری رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا تو انہیں دستوری فیصلے کا پابند بنانے کے لیے ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت کا قانون نافذ کرنا پڑا، مگر اسے بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام دینی مکاتب فکر اور عوام حکومتِ پاکستان سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو دستوری فیصلہ اور امتناعِ قادیانیت کے قانون کا پابند بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ جبکہ قادیانیوں نے ان فیصلوں کے خلاف عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں میں مورچہ زن ہو کر پاکستان، ملک کے مذہبی حلقوں اور دستور و قانونی فیصلوں کے خلاف پراپیگنڈا اور لابنگ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جس کے باعث عالمی ادارے اور بین الاقوامی حلقے پاکستان پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ دستور و قانون کے ان فیصلوں پر نظرثانی کرے جو قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دیتے ہیں، اور پاکستان میں قادیانیوں کے ساتھ وہی معاملات روا رکھے جائیں جو وہ مسلمانوں کے ٹائٹل اور اسلام کے نام پر مانگ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں قادیانی مسئلہ پر قومی سطح کی اس نئی بحث پر گہری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ قادیانی مسئلہ کی تفہیم میں جو الجھاؤ پیدا کر دیے گئے ہیں اور عالمی دباؤ کی جو نئی صورتحال سامنے آ رہی ہے اس کا سامنا کرنے کے لیے مشترکہ غور و خوض کا اہتمام کریں۔ اور ازسرنو صف بندی کے ساتھ اس اہم ترین دینی و قومی مسئلہ پر امتِ مسلمہ کے موقف اور ملک کی دینی جدوجہد کے ثمرات کو خدانخواستہ سبوتاژ ہونے سے بچائیں۔ ہمارے خیال میں اس سلسلہ میں تین باتیں بطور خاص قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ جن عالمی اداروں اور بین الاقوامی این جی اوز کو اس مسئلہ میں مسلم امہ اور پاکستان کے خلاف مہم کا مورچہ بنایا گیا ہے ان تک رسائی اور وہاں اپنا موقف پیش کر کے قادیانی دجل کو واضح کرنے کا ہم ابھی تک کوئی اہتمام نہیں کر سکے جو انتہائی ضروری کام تھا اور اس کی طرف سنجیدہ توجہ نہ دینے کا خمیازہ ہمیں موجودہ صورتحال کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ پر قومی سطح پر گفتگو کا کوئی مشترکہ فورم اس وقت دکھائی نہیں دے رہا جیسا کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختمِ نبوت کے دوران موجود تھا۔
جبکہ تیسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تحریکات میں دینی حلقوں کے ساتھ تاجر برادری، وکلاء، اساتذہ، طلبہ، صحافی حضرات اور دیگر طبقات کی قیادت اور ان کی اعلیٰ سطحی نمائندگی کا ماحول بھی موجود تھا، جو اَب نظر نہیں آ رہا۔ عالمی ماحول تک رسائی نہ ہونے پر مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ کا حوالہ کافی ہو گا کہ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں قادیانی مسئلہ زیر بحث آیا تو حکومتِ پاکستان اور ملک کی دینی قیادتوں نے اس پر عملی کردار ادا کیا، جس سے وہاں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر اقوام متحدہ، یورپی یونین، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر عالمی اداروں میں یہ مسئلہ مسلسل زیر بحث رہتا ہے مگر ہماری کوئی نمائندگی اور سرگرمی اس ماحول میں موجود نہیں ہے جس کا نقصان رفتہ رفتہ سامنے آ رہا ہے۔
اس تناظر میں ملک کی تمام دینی قیادتوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہوا کی رفتار اور رخ کا بروقت ادراک و احساس کرتے ہوئے تحریکِ ختمِ نبوت کی ازسرنو صف بندی کا اہتمام کریں تاکہ ہم اب تک کی جدوجہد کے نتائج اور کامیابیوں کو خدانخواستہ سبوتاژ ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بھی کوئی مؤثر کردار ادا کر سکیں۔