کل جماعتی مشاورتی سیمینار

   
۲۱ مئی ۲۰۲۲ء

دینی جدوجہد کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے گوجرانوالہ میں منعقدہ سیمینار میں تحفظ تقدس مسجد نبویؐ، سودی نظام کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ اور ملک میں موجودہ سیاسی کشمکش اور خلفشار کے حوالہ سے اہم تجاویز دی گئیں اور قومی سطح پر معاملات کو آگے بڑھانے پر غور کیا گیا۔

اس سیمینار میں راقم الحروف کے علاوہ مولانا اقبال رشید، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جمعیت علماء پاکستان کے صوبائی راہنما صاحبزادہ پیر سید محفوظ احمد مشہدی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صوبائی راہنما مولانا محمد یاسین آزاد، مولانا حافظ اسعد محمود سلفی، مولانا حافظ محمد سعید کلیروی، مظہر اقبال رندھاوا، صاحبزادہ نصیر احمد اویسی، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، حافظ امجد محمود معاویہ، مولانا قاری جواد قاسمی اور مفتی محمد نعمان احمد کے علاوہ سنی علماء کونسل کے صوبائی صدر مولانا طاہر اشرف نے شرکت کی۔

طے پایا کہ ایجنڈا میں شامل تینوں امور پر دینی و سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو توجہ دلا کر قومی اور صوبائی سطح پر اس نوعیت کے مشترکہ پروگراموں کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ موجودہ سیاسی خلفشار کے ماحول کو کم کرتے ہوئے ہم آہنگی، برداشت اور مفاہمت کی فضا بحال کی جا سکے۔

حرم نبویؐ میں کچھ دنوں قبل پاکستان کی داخلی سیاسی کشمکش کے حوالہ سے ہونے والی نعرہ بازی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سیمینار میں اسے مسجد نبویؐ کے آداب اور حرم مدینہ کی تعظیم و توقیر کے منافی قرار دیا گیا اور اس سلسلہ میں سعودی حکومت کے فوری اقدامات کو سراہا گیا۔

مقررین نے کہا کہ اس افسوسناک واقعہ پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل دکھے ہیں، اس لیے ایسا کرنے والوں کو اپنی اس حرکت پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور قانونی اداروں کو اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

مقررین نے سودی نظام کے خاتمہ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قیام پاکستان کے مقصد کی تکمیل اور ملک میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی طرف سے اہم قدم ہے، جسے کامیاب بنانے کے لیے تمام دینی مکاتب فکر کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم کے تمام طبقات کو بھی سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

مقررین نے کہا کہ ملک کی معیشت کی موجودہ پریشان کن صورتحال سودی نظام کے تسلسل کا ہی نتیجہ ہے، اس لیے شرعی احکام کی پاسداری کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کا بھی اولین تقاضہ ہے کہ سودی نظام کی لعنت سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے۔ جس کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ میں تمام اشکالات و ضروریات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ملک کے نظامِ معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے لیے مکمل راہ عمل طے کی گئی ہے۔

مقررین نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر واضح طور پر کہا تھا کہ ملک کے نظام معیشت کو مغربی اصولوں کی بجائے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مطابق تشکیل دیا جائے، جبکہ دستور پاکستان میں حکومت کو دو ٹوک ہدایت دی گئی ہے کہ معاشی نظام سے سود کا جلد از جلد مکمل خاتمہ کیا جائے، مگر ابھی تک اس کو مسلسل ٹالا جا رہا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں سودی نظام جاری رکھنے پر اصرار کو خدا اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے اور یہی طرز عمل ہمارے قومی معاملات کے صحیح ٹریک پر نہ آنے کا اصل سبب ہے، جسے دور کیے بغیر قومی مسائل و مشکلات کو حل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

مقررین نے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کچھ مالیاتی ادارے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف دوبارہ اپیل دائر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور کہا کہ قوم کے تین عشرے اس سے پہلے اپیلوں کے چکر میں ضائع کیے جا چکے ہیں، اس لیے اب اپیل کی غلطی دہرائی گئی تو ایسا کرنے والوں کو تمام دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ شدید عوامی ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور اس بات پر تمام مکاتب فکر پوری طرح متفق ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ پر مقررہ وقت کے اندر مکمل عملدرآمد کے لیے عوامی جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔

ملک میں سیاسی خلفشار کی مسلسل بڑھتی ہوئی صورتحال پر بھی مقررین نے تشویش و اضطراب کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی استعماری ادارے پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کے خلاف ایک عرصہ سے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اور ملک میں ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایٹمی قوت اور اسلامی ریاست کے اعزاز سے خدانخواستہ محروم کیا جا سکے اور اسی لیے سیاسی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور قوم کے مختلف طبقات میں باہمی بے اعتمادی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے تمام محب وطن شہریوں اور حلقوں کو چوکنا رہنا چاہیے۔

مقررین نے کہا کہ سیاسی اختلاف اور اس کے اظہار کا ہر شہری کو حق حاصل ہے، مگر اس کے لیے خلفشار کا ماحول پیدا کرنا، ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانا اور قومی اداروں کے اعتماد کو مجروح کرنا کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں ہے، جس کے خلاف سب لوگوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کا احترام ہم سب کی ذمہ داری ہے اور کسی بھی قومی ادارے کے خلاف بے اعتمادی کی بات کرنا ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔

آخر میں راقم الحروف کو بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔ اہل علم کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راقم الحروف نے اس مشترکہ اجتماع کی کامیابی کو ملک کے لیے نیک فال قرار دیا اور بتایا کہ وہ سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے حوالہ سے ”تحریک انسداد سود پاکستان“ کا مشاورتی اجلاس اگلے ہفتہ کے دوران لاہور میں طلب کر رہے ہیں، جس میں مختلف دینی جماعتوں کے راہنما شریک ہو کر جدوجہد میں پیشرفت کا طریق کار طے کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter