مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے پرانے فضلاء میں سے تھے۔ ہم نے کئی سال مدرسہ میں اکٹھے گزارے، وہ عمر میں چند ماہ بڑے تھے اور دورۂ حدیث بھی مجھ سے ایک یا دو سال پہلے کیا مگر تعلیمی دور میں اور پھر اس کے بعد عملی زندگی میں طویل عرصہ رفاقت رہی۔ ان کے بڑے بھائی مولانا حافظ عزیز الرحمان خورشید بھی ہمارے ساتھ تھے جو آج کل ملکوال ضلع منڈی بہاء الدین کی جامع مسجد فاروقیہ کے خطیب ہیں۔ مولانا سعید الرحمان علویؒ اور میرا لکھنے پڑھنے کا ذوق مشترک تھا، لائبریریاں تلاش کرنا، کتب و رسائل مہیا کرنا اور اردگرد سے بے خبر ہو کر ان کا مطالعہ کرنا ہمارے معمولات میں شامل تھا۔ گوجرانوالہ میں ان دنوں دو ہفت روزے ہماری دسترس میں تھے جن میں ایک ہفت روزہ ’’نوائے گوجرانوالہ‘‘ تھا جو معروف صحافی سید جمیل الحسن مظلوم مرحوم کی ادارت میں چھپتا تھا اور ہمارے ہلکے پھلکے مضامین اس میں شریک اشاعت ہوجایا کرتے تھے۔ مولانا سعید الرحمان علوی مرحوم کا ذوق مضامین کا زیادہ تھا جبکہ میرے ذوق پر خبروں اور بیانات کا غلبہ رہتا تھا، بہرحال یہ ایک قدرِ مشترک تھی جس نے ہمارے طالبعلمانہ رفاقت کو بے تکلف دوستی کا رنگ دے دیا تھا۔
مولانا حافظ عزیز الرحمان خورشید مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے تو مولانا علوی مرحوم اور میرا ہفت روزہ ترجمان اسلام کے ساتھ بلاواسطہ ربط قائم ہوگیا اور ہمارے لکھنے پڑھنے کی توجہات کا رخ زیادہ تر اسی کی طرف مڑ گیا۔ ایوبی آمریت کے خلاف احتجاجی تحریک میں حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز پولیس تشدد میں زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے تو ان کی بیماری کے ایام میں ہمارا ڈیرہ بھی ہفت روزہ ترجمان اسلام کے دفتر میں لگ گیا جو رنگ محل چوک کے پاس جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر میں تھا۔ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور ان کے رفقاء پر پولیس تشدد کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا، ہم نے مل جل کر احتجاج کی خبروں اور رپورٹوں کو مرتب کر کے ترجمان اسلام کی زینت بنایا جو عملی صحافت کا ہمارا پہلا تجربہ تھا۔ روزانہ شام کو ہم میو ہسپتال جاتے، اخبارات کے لیے خبریں بناتے اور ترجمان اسلام کے لیے رپورٹیں مرتب کیا کرتے تھے۔
ہم دونوں جمعیۃ علمائے اسلام کی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شریک تھے اور صحافتی ذوق بھی آگے بڑھ رہا تھا۔ بعد میں ایک وقت آیا کہ میں نے ہفت روزہ ترجمان اسلام کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی جبکہ مولانا سعید الرحمان علوی مرحوم ہفت روزہ خدام الدین کے ایڈیٹر بن گئے اور یوں زندگی کا قافلہ رواں دواں رہا۔ ہمارے مقاصد اور اہداف مشترک تھے مگر انداز اور اسلوب میں فرق بہرحال موجود تھا۔ مجھے جارحیت کا انداز کبھی راس نہیں آیا بلکہ دفاع اور افہام و تفہیم کے ڈپلومیٹک لہجے میں بیانات کرنے کی عادت سی بن گئی۔ جبکہ مولانا علوی مرحوم کے اسلوب میں تنقید اور جارحیت کا عنصر غالب تھا اور وہ کسی کے خلاف بات کرتے یا لکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے باقاعدہ لشکر کشی کر رہے ہوں۔ بہرحال انہوں نے بہت لکھا، مختلف موضوعات پر لکھا، متعدد جرائد و رسائل میں لکھا اور خوب لکھا۔ وہ وسیع المطالعہ تھے، ہر موضوع پر پڑھنے کے عادی تھے اور میری طرح جستہ جستہ نہیں بلکہ بالاستیعاب پڑھتے تھے۔ ذہن میں اخذ کی صلاحیت بہت تھی، تجزیہ و استدلال کی استعداد سے بہرہ ور تھے اور نقد و جرح کا بھی خوب ذوق پایا تھا اس لیے بعض معاملات میں تفردات رکھتے تھے اور ان پر جمتے اور اڑتے بھی تھے۔ مختلف معاملات میں ہمارے درمیان اختلافِ رائے ہوجاتا تھا جن کا مضامین میں اظہار بھی ہوتا رہتا تھا۔
اکتوبر ۱۹۹۴ء میں مولانا سعید الرحمان علویؒ نے اچانک وفات پائی تو یہ ساری گہماگہمی ختم ہوگئی اور اس کے ساتھ دوستی اور اختلاف اور بحث و تکرار کے وہ سب مرحلے تاریخ کی نذر ہوگئے مگر ایک احساس دل میں مسلسل موجود رہا کہ مولانا علوی مرحوم نے جو کچھ لکھا ہے اور جن موضوعات پر مختلف جرائد و رسائل میں انہوں نے قلم اٹھایا ہے اسے ریکارڈ میں محفوظ ہونا چاہیے اور کتابی شکل میں نئی نسل کے ہاتھوں میں پہنچنا چاہیے۔ اس لیے کہ آج کے معروضی حالات اور پیش آمدہ مسائل کے حوالہ سے اس ذخیرہ میں نوجوانوں کے لیے رہنمائی کا بہت سا سامان موجود ہے۔ اور بے حسی اور فکری جمود کے اس دور میں خیالات و افکار اور جذبات و احساسات کو جگانے کے لیے علوی صاحب مرحوم کی تحریریں مہمیز کا کام دے سکتی ہیں۔ ایک لحاظ سے ان کا یہ مجھ پر بھی حق بنتا تھا مگر میری سست روی کا یہ عالم ہے کہ خود اپنے مضامین کو مرتب نہیں کر سکا جو کم و بیش چالیس سال کے عرصہ اور تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ تعداد کا احاطہ کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان سب کو ریکارڈ میں محفوظ بھی نہیں کر پایا۔ تاہم یہ خواہش دل میں ضرور رہی ہے کہ علوی صاحب مرحوم کے مضامین کو کوئی صاحب ہمت جمع کر کے ان کی اشاعت کا اہتمام کر سکیں تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔
گزشتہ دنوں ان کے بڑے بھائی مولانا حافظ عزیز الرحمان خورشید نے فون پر بتایا کہ انہوں نے مولانا سعید الرحمان علوی مرحوم کے مضامین کو جمع کرنے اور کتابی شکل میں شائع کرنے کا پروگرام بنایا ہے اور ان کی کوشش سے لاہور کے ایک مکتبہ نے اس سلسلہ کی پہلی کتاب شائع کر دی ہے جو وہ مجھے بذریعہ ڈاک بھجوا رہے ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی اور آج کی ڈاک میں ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ کے نام سے یہ کتاب وصول کر کے یہ خوشی دوچند ہوگئی۔ اس کتاب میں مرحوم کے تین اہم مضامین شامل ہیں۔
ایک میں اسلامی حکومت کے فلاحی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں جو معاشی لحاظ سے طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور جب تک دولت اور وسائلِ دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے مروجہ نظام کو ختم کر کے اور خلافتِ راشدہ کے اصولوں پر اسے ازسرنو مرتب نہیں کیا جاتا ملک میں امن و خوشحالی ممکن نہیں ہے۔
دوسرا مضمون ’’اقتصادی مسئلہ کا حل قرآن و سنت اور فقہ کی رو سے‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مروجہ معاشی نظام کو زیر بحث لا کر اس کی خرابیاں بیان کی گئی ہیں اور قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔
جبکہ تیسرا مضمون ’’حجر کی لغوی اور شرعی تحقیق‘‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں مولانا علوی مرحوم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حجر کی شرعی اور فقہی اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ یتیم، نابالغ اور بے وقوف لوگ جو اپنے اموال کے صحیح استعمال کی صلاحیت اور شعور سے بہرہ ور نہیں ہیں، اور خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اموال کو ضائع کر دیں گے، انہیں حکومت خود ان کے اپنے اموال میں تصرف سے روک سکتی ہے اور ان پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ عام طور پر اس ضمن میں نابالغ بچوں، یتیموں اور عقل و شعور سے بے بہرہ لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے لیکن مولانا مرحوم نے مختلف دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ جو سرمایہ دار فضول خرچی، نمود و نمائش اور فخر و مباہات کے طور پر کثیر رقوم خرچ کرتے ہیں اور اس سے دولت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ معاشرتی بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے، وہ بھی ان لوگوں کے زمرہ میں شمار ہوتے ہیں جو دولت کے صحیح استعمال کے شعور اور صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں، اور حجر کے شرعی قانون کے تحت ان پر بھی اس حوالہ سے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے سفہاء کے اموال ان کے سپرد نہ کرنے کی جو ہدایت دی ہے اور فرمایا ہے کہ جب تک یتیم اور سفیہ ’’رشد‘‘ کی صلاحیت سے بہرہ ور نہ ہو جائیں اس وقت تک ان کے اموال ان کے سپرد نہ کیے جائیں تو یہاں ’’رشد‘‘ سے مراد صرف ظاہری عقل اور سمجھ نہیں ہے بلکہ دینی شعور اور مال کو صحیح مصرف پر خرچ کرنے کا ادراک بھی اس میں شامل ہے۔ اس پر انہوں نے امت کے متعدد فقہاء اور اہل علم کی آراء اپنی تائید میں پیش کی ہیں۔
یہ بڑی دلچسپ بحث ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز مشکوٰۃ شریف کے سبق میں یہ حدیث آگئی کہ ایک صاحب نے وفات سے قبل اپنے چھ غلام آزاد کر دیے جو کہ ان کا کل اثاثہ تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اگر مجھے پہلے معلوم ہو جاتا تو میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان صاحب نے اپنا کل اثاثہ یعنی چھ غلام آزاد کر کے اپنے وارثوں کی حق تلفی کی تھی کیونکہ انہیں مرض الوفات میں اپنی کل جائیداد کے صرف تیسرے حصے پر تصرف کا حق حاصل تھا اور وارثوں کے مال میں تصرف کی انہیں اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے نہ صرف ناراضگی کا اظہار فرمایا بلکہ ان چھ غلاموں کو طلب کر کے قرعہ اندازی کے ذریعہ ان میں سے دو کو آزاد کیا اور باقی چار غلام وارثوں کے سپرد کر دیے۔ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے طلباء کو بتایا کہ کوئی شخص اپنے مال میں اگر اس طرح کا تصرف کر رہا ہو کہ اس سے دوسروں کا حق مجروح ہوتا ہو تو حکومت کو اس میں مداخلت کا حق حاصل ہے اور اس تصرف کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال اسلامی اقتصادیات کے حوالے سے مولانا سعید الرحمان علوی مرحوم کے یہ مضامین لائقِ مطالعہ ہیں اور مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ ان کے مضامین کو جمع کرنے اور کتابی شکل میں سامنے لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مولانا مرحوم کی تمام باتوں سے اتفاق ضروری نہیں ہے لیکن ایک صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ بزرگ کی علمی کاوش کو ضرور سامنے آنا چاہیے کہ علمی مباحثہ و مکالمہ سے مسائل کے حل کی راہ نکلتی ہے۔