سندھ اسمبلی کے ارکان اپنی رائے پر نظر ثانی کریں

   
۲ اپریل ۲۰۱۴ء

گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ چند ہفتے قبل قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ سفارش کی تھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اسمبلی اور دیگر متعلقہ ایوانوں میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیا جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جو جید علماء کرام اور ممتاز ماہرین قانون پر مشتمل ہے اور اس کے ذمہ کام یہ ہے کہ وہ ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر ان کی شرعی حیثیت کا تعین کرے اور جن قوانین کو قرآن و سنت سے متصادم پائے ان کی اصلاح تجویز کرتے ہوئے حکومت کو متبادل قوانین کے لیے سفارشات فراہم کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ کے فوراً بعد قائم کر دی گئی تھی اور کونسل کے بقول وہ ملک کے تمام قوانین کا جائزہ مکمل کر کے اپنی سفارشات وزارت قانون کے حوالہ کر چکی ہے، جنہیں قانون سازی کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرنا وزارت قانون کی ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی جا رہی۔ اس لیے قومی اسمبلی کو ایک قرارداد کے ذریعہ کہنا پڑا ہے کہ وزارت قانون اپنی یہ دستوری ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کرے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ جب ملک کے دستور میں یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت سے منافی کوئی قانون منظور نہیں کر سکے گی تو اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ جو قانون پارلیمنٹ پاس کر رہی ہے وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ اسمبلی کا رکن وہ شخص بن سکے گا جو قرآن و سنت کا اس درجہ کا علم رکھتا ہو کہ کسی قانون کے قرآن و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کر سکے۔ کیونکہ اگر پارلیمنٹ کے ارکان کا خود قرآن و سنت کے علوم سے واقف ہونا شرط نہیں ہے تو انہیں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا پابند بنانا نہ صرف قرآن و سنت کے تقاضوں کے منافی ہے، بلکہ خود ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ انہیں ایک ایسا کام کرنے کے لیے کہا جائے جو وہ کر نہیں سکتے۔

کچھ عرصہ قبل یہ بحث چلی تھی کہ کیا پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کا حق دیا جا سکتا ہے؟ تو ہم نے ایک شرط کے ساتھ اس کی تائید کی تھی کہ اگر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کی اہلیت کا معیار طے کرا لیا جائے اور الیکشن رولز میں ترمیم کر کے اہلیت کے اس معیار کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے شرط قرار دے دیا جائے تو پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد کا حق تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو اس کی متبادل صورت یہ ہے کہ جدید قانون کے ماہرین اور قرآن و سنت کے جید علماء کرام پر مشتمل ایک دستوری ادارہ موجود ہو جو ایسے معاملات میں پارلیمنٹ کی راہ نمائی کرتا رہے۔

یہ تجویز دراصل مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کی ہے۔ جب انہوں نے اپنے معروف خطبات میں پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کی بات کی تو اس خلا اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ جید علماء کرام اور فقہاء کی ایک کونسل اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کے ساتھ شریک کار ہونی چاہیے جو پارلیمنٹ کی راہ نمائی کرتی رہے کہ کون سا قانون یا بل قرآن و سنت سے مطابقت رکھتا ہے اور کون سے قانون کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے ترمیم کی ضرورت ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام علامہ محمد اقبالؒ کی اسی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا جو اپنا کام تو مسلسل کر رہی ہے، لیکن اس کی علمی و فقہی کاوشیں اس کی فائلوں یا وزارت قانون کی میز کی دراز تک محدود ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک کام تو یہ تھا کہ وہ ملک میں رائج موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر ان میں قرآن و سنت کی روشنی میں ترامیم تجویز کرے۔ یہ کام وہ مکمل کر کے کم و بیش سات سو قوانین کے بارے میں اپنی سفارشات و تجاویز وزارت قانون کے سپرد کر چکی ہے۔ جبکہ دوسرا کام اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری کا یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کو کسی معاملہ میں شریعت کی راہ نمائی کی ضرورت ہو تو اس کی یہ ضرورت پوری کرنا بھی کونسل کی ذمہ داری ہے۔

سندھ اسمبلی کو بعض ارکان کے جن تحفظات کے حوالہ سے بریف کر کے یہ قرارداد منظور کرائی گئی ہے وہ قابل غور ہے۔ اس لیے کہ کسی قانون کی تعبیر و تشریح کے حوالہ سے تحفظات الگ بات ہے، جبکہ قومی ضرورت کے ایک ادارے کی ضرورت و افادیت ایک مستقل معاملہ ہے۔ مثلاً اگر کچھ حضرات کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بارے میں تحفظات ہوں یا کسی عدالت کا کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو انہیں اس فیصلہ سے جائز حدود میں اختلاف کا حق حاصل ہے، لیکن سرے سے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ادارے کو ختم کر دینے کی بات عقل و انصاف کی بات نہیں ہو گی۔ اگر ملک کے قوانین کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے تو فیصلہ کرنے والے اداروں کا براہ راست یا بالواسطہ قرآن و سنت کے علوم سے واقف ہونا بھی ضروری ہے، اس کا انکار ملک کے اسلامی تشخص اور دستور کی نظریاتی بنیادوں کا انکار ہے۔ اس لیے ہم سندھ اسمبلی کے معزز ارکان سے گزارش کریں گے کہ وہ علامہ اقبالؒ کے خطبات کا مطالعہ کریں اور ان کی تجویز پر قائم ہونے والے ادارے کے خلاف اپنی قرارداد پر نظر ثانی کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter