بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ذی الحج کا مہینہ ہمارے اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مہینے میں حج اور قربانی کی دو بڑی عبادتیں ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ حج کے لیے دنیا بھر سے مسلمان حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں اور ۸ ذی الحج سے لے کر ۱۳ ذی الحج تک حج ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حج سے پہلے یا بعد میں جناب نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ اطہر پر حاضری دیتے ہیں، مسجد نبوی میں نمازیں پڑھتے ہیں اور برکات و سعادتیں حاصل کر کے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس سال اندازہ کیا جا رہا ہے کہ تقریباً پچیس لاکھ مسلمان حج ادا کریں گے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ حج کے مناسک کے لیے دنیا کے ہر کونے سے مسلمان وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی وحدت کی علامت بھی ہے، کعبہ کی مرکزیت کی علامت بھی ہے اور اِس بات کی علامت بھی ہے کہ مسلمانوں میں آج بھی تمام تر رکاوٹوں اور کمزوریوں کے باوجود دین اسلام کا جذبہ بیدار ہے۔ اور فتنوں کے اِس دور میں بھی اللہ سے، دین سے، بیت اللہ سے، مسجد نبوی سے اور حضورؐ کی ذات گرامی سے تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہے۔ اِس کا اِظہار حرمین شریفین میں ہر سال پورے جوش و خروش کے ساتھ رمضان المبارک اور پھر خاص طور پر حج کے دنوں میں ہوتا ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ سارا سال تسلسل کے ساتھ کسی وقفے کے بغیر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
میں آج کی اِس نشست میں حج کے نظام کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہوں گا۔ جاہلیت کے زمانے میں جناب نبی کریمؐ کی بعثت سے پہلے بلکہ آپؐ کی ہجرت کے بعد بھی حج ہوتا تھا۔ فتح مکہ سے پہلے مؤمنین، مؤحدین اور مشرکین سب اپنے اپنے ذوق کے مطابق حج کرتے تھے۔ لیکن جاہلیت کے دور میں حج کا جو تسلسل چلا آرہا تھا، جناب نبی کریمؐ نے اس میں چند اصلاحات اور تبدیلیاں فرمائیں۔ میں اُن تبدیلیوں اور اصلاحات کا کچھ تذکرہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
فتح مکہ ۸ ہجری کے سال ہوئی۔ فتح مکہ کے بعد پہلا حج ۹ ہجری میں آیا۔ نبی کریمؐ نے ۹ ہجری کا حج ادا نہیں فرمایا بلکہ آپؐ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی اِمارت میں صحابہ کرامؓ کو ادائیگیٔ حج کے لیے بھیجا۔ حضورؐ نے ۹ ہجری کا سال اصلاحات و تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے ذریعے ۹ ہجری کے حج کے موقع پر بہت سے اعلانات کروائے۔ یہ اعلانات حج کے نظام کی تطہیر، دیگر قوموں کے ساتھ معاہدات، جاہلی رسومات پر پابندی اور دیگر دینی و انتظامی امور کے متعلق تھے۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ اگلے سال حضورؐ حج کے لیے تشریف لائیں گے۔ چنانچہ ۹ ہجری کا سال آپؐ نے اگلے سال حج کے لیے ماحول کی صفائی میں صرف کیا۔ گویا یوں ہوا کہ رسول اللہؐ نے حج پر اپنے تشریف لے جانے سے پہلے حج کے پورے نظام کی تطہیر فرمائی اور حج کو اللہ اور مسلمانوں کے لیے خالص کر دیا ۔ پھر حضورؐ نے ۱۰ ہجری کا حج ادا کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
پہلی تبدیلی جناب نبی کریمؐ نے یہ فرمائی کہ فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ، حرم پاک اور مکہ مکرمہ کو بتوں سے صاف کر دیا۔ فتح مکہ سے پہلے یہ جگہیں بتوں کی آماجگاہ تھیں اور وہاں سینکڑوں بت نصب تھے۔ مسجد حرام میں بھی، بیت اللہ کے اندر بھی، اور حرم کے ماحول میں بھی۔ لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے، صفا و مروہ کی بھی کرتے تھے، اور بتوں کے سامنے حاضری بھی دیتے تھے۔ حج کے دنوں میں یہ عبادت اور شرک کے کام ساتھ ساتھ ہی ہوتے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے حج کے نظام میں پہلی تبدیلی یا اصلاح یہ فرمائی کہ فتح مکہ کے بعد بیت اللہ ، مسجد حرام، حرم کی حدود، بلکہ پورے جزیرۃ العرب کو بتوں سے پاک کر دیا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی کہ بیت اللہ اور حرم کا ماحول بتوں سے پاک ہوا۔ اللہ کی عبادت کے ساتھ اور اللہ کے گھر کی حاضری کے ساتھ جو بتوں کی شرکت ہوتی تھی وہ ختم ہو گئی۔ اِس طرح حج خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوگیا۔
اسی طرح حرم کی حدود میں بت پرستی کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالے سے جوا اور لاٹری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ لوگ مختلف پہلوؤں سے وہاں بتوں کے ذریعے، بتوں کی موجودگی اور سائے میں لاٹری اور جوا کھیلتے تھے۔ اس کی مختلف شکلیں تاریخ اور احادیث میں مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو اُن میں حضرت ابراہیمؐ اور حضرت اسماعیلؐ کے بت بھی تھے۔ بت اس طریقے سے بنائے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’قاتلھم اللّٰہ‘‘ اللہ ان کا بیڑا غرق کرے کہ مشرکین نے ان بزرگوں کے ہاتھوں میں بھی تیر پکڑا دیے حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے زندگی میں کبھی لاٹری یا جوا نہیں کھیلا۔ چنانچہ جس طرح حضورؐ نے وہاں سے بتوں کو صاف کیا اسی طرح یہ لاٹری، جوا اور اَزلام وغیرہ کا سلسلہ بھی حضورؐ نے وہاں سے ختم فرما دیا۔ یہ حج کے نظام میں دوسری بڑی اصلاح تھی جو رسول اللہؐ کے ہاتھوں سر انجام پائی۔
تیسرے نمبر پر جناب نبی کریمؐ نے حج کے نظام میں جو تبدیلی کی وہ یہ تھی کہ حج کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ اس سے پہلے کسی مذہب یا قومیت کی قید نہیں تھی اور حج کے لیے کوئی بھی آسکتا تھا۔ موحد و مؤمن، مشرک و بت پرست، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو سب آتے تھے اور اپنے اپنے طریقے پر حج ادا کرتے تھے۔ لیکن جناب نبی کریمؐ نے قرآن مجید کے حوالے سے اعلان فرما دیا کہ ’’یا ایہا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا‘‘ (التوبہ ۲۸) اے ایمان والو! مشرک تو ناپاک ہیں، اس لیے اِس سال کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آنے پائیں۔
فتح مکہ سے پہلے سب حج کے لیے آتے تھے، حضورؐ نے اعلان فرما دیا کہ اب کے بعد کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا۔ حج مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے، مسلمانوں کی عبادت ہے، اس لیے یہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ تیسری بڑی اصلاح تھی جو جناب نبی کریمؐ نے حج کے نظام میں فرمائی۔
جناب رسالت مآبؐ نے چوتھی تبدیلی یہ فرمائی کہ ننگے طواف کی جاہلی رسم کا خاتمہ کر دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں بہت سے قبائل کے لوگ حج کے لیے آتے تھے تو وہ ننگے طواف کرتے تھے۔ مرد تو بالکل ننگے ہوتے تھے، کوئی ایک دھاگہ بھی ان کے جسم پر نہیں ہوتا تھا جبکہ عورتوں نے پہلوانوں کی طرح کی ایک لنگوٹی سی باندھی ہوتی تھی۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ جب ہم اللہ کی طرف سے دنیا میں آئے تھے تو ننگے آئے تھے، اس لیے ہم اللہ کے گھر بھی اسی حالت میں حاضری دیں گے۔ قریش والے حمس کہلاتے تھے یعنی برتر لوگ جنہیں آج کی اصطلاح میں وی آئی پی کہہ لیں۔ یہ بڑے، برگزیدہ اور چُنے ہوئے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ اس زمانے میں رواج یہ بن گیا تھا کہ حج کے لیے کسی آنے والے کو قریش والے اگر کوئی لباس دے دیتے تو وہ لباس تبرک سمجھ کر پہنا جاتا تھا۔ لیکن قریش والے اگر کسی مرد یا عورت کو لباس نہ دیتے تو وہ ننگے ہی طواف کرتے تھے۔ چنانچہ جناب نبی کریمؐ نے اس کی ممانعت فرما دی اور حج کا لباس متعین کر دیا کہ مرد دو چادروں میں آئیں گے جبکہ عورتیں مکمل لباس میں آئیں گی۔ کوئی مرد یا عورت ننگا طواف نہیں کر سکے گا۔ یہ ایک بڑی اصلاح حج کے نظام میں حضورؐ نے فرمائی۔ چنانچہ حج کے موقع پر ایک عجیب منظر ہوتا ہے کہ کوئی کسی ملک کا صدر ہو یا کلرک، مالک ہو یا نوکر، تاجر ہو یا مزدور، پیر ہو یا مرید سب کے جسموں پر دو چادریں ہوتی ہیں۔ کسی مرد کے لباس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص دنیا کے اعتبار سے کس سطح یا گریڈ کا آدمی ہے، سب برابر نظر آتے ہیں۔ تو نبی کریمؐ نے حج کے نظام میں یہ تبدیلی فرمائی کہ ننگے طواف کو ممنوع قرار دے دیا اور اعلان فرما دیا کہ آئندہ کوئی بھی ننگا مرد یا ننگی عورت طواف کے لیے نہیں آئیں گے۔
پانچویں اصلاح جو حج کے نظام میں ہوئی قرآن مجید نے اس کا اظہار کیا جبکہ حضورؐ نے پھر اس کا نفاذ کیا۔ جاہلیت کے زمانے میں حج کی ترتیب یہ ہوتی تھی کہ حج کا طواف تو سب لوگ کرتے تھے لیکن صفا و مروہ کی سعی سب لوگ نہیں کرتے تھے۔ صفا و مروی کی سعی صرف قبیلہ قریش اور ان کے حلیف چند قبائل کرتے تھے۔ بہت سے قبائل ایسے تھے جو صفا و مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے۔ اس کا ذکر بھی حدیث میں آتا ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ اصل میں تو صفا و مروہ کی سعی حضرت ابراہیمؐ کی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہؐ کی یاد میں ہے۔ یہ اس واقعہ کی یاد میں ہے جب وہ اپنے معصوم بچے اسماعیلؐ کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑی تھیں۔ تو بعض حضرات کا یہ کہنا تھا کہ حضرت ہاجرہؑ قریش والوں کی ماں تھیں اس لیے بس وہ ہی ان کی یاد میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں، باقیوں کو دوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ بعض یہ بھی کہتے تھے کہ یہ جاہلیت کی بات ہے۔ انس بن مالکؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو اسے جاہلیت کی بات سمجھتے تھے۔ انصار مدینہ کے دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج صفا و مروہ کی سعی کو جاہلیت کی بات سمجھتے تھے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ماں ایک دفعہ دوڑی تھی تو بس قیامت تک ان دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہی رہو۔ تو یہ وجہ اس بات کا باعث تھی کہ قریش اور ان کے حلیف قبیلوں کے علاوہ لوگ صفا و مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے۔ انس بن مالکؓ خود فرماتے ہیں کہ ہم صفا و مروہ کی سعی کو تأثم یعنی گناہ سمجھتے تھے۔
غیر قریش جو صفا و مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے، وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد اپنے اپنے بت خانوں میں حاضری دیتے تھے۔ لیکن جب جناب نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے بعد سارے بت صاف کروا دیے تو غیر قریش کو یہ الجھن پیش آئی کہ وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد کہاں جائیں۔ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ہم پہلے بیت اللہ کے طواف کے بعد قدید کے مقام پر اپنے بت خانے منات میں حاضری دیا کرتے تھے اور ہماری وہی سعی ہوتی تھی۔ ہمیں یہ الجھن پیش آئی کہ اب ہم کیا کریں گے، قریش والے تو صفا و مروہ کی سعی کریں گے لیکن ہم تو سعی نہ کرنے والوں میں سے ہیں۔ تو انصار مدینہ نے جناب نبی کریمؐ کے سامنے یہ مشکل عرض کی۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس کی وضاحت فرما دی کہ ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ (البقرہ ۱۵۸) بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر (نشانیوں) میں سے ہیں، جو آدمی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے، تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اِن (صفا و مروہ کی پہاڑیوں) کے درمیان بھی چکر لگا لے۔
پہلے تو یہ وضاحت فرمائی کہ حضرت ہاجرہؑ کا واقعہ تو اپنی جگہ ہے لیکن صفا و مروہ خود اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ جس طرح بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہے اسی طرح صفا و مروہ بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ تو جو لوگ صفا و مروہ کی سعی کرنے کو حرج کی بات سمجھتے تھے قرآن مجید نے پہلے تو ان کا ذہن صاف کیا، اس کے بعد کہا کہ جو حج اور عمرہ کرے اس کے لیے صفا و مروہ کی سعی کوئی حرج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ حج و عمرہ کے ضروری مناسک میں سے ہے۔ جیسے بیت اللہ کا طواف شعائر اللہ کی تعظیم ہے ایسے ہی صفا و مروہ کی سعی بھی شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اس طرح یہ صفا و مروہ کی سعی مستقلاً حج کے مناسک میں شامل ہوئی جو اس سے پہلے سب لوگوں کے لیے نہیں سمجھی جاتی تھی۔ حج کے نظام میں یہ ایک بڑی تبدیل آئی جناب نبی کریمؐ کی اصلاحات سے۔
حج کا سب سے بڑا رکن عرفات کا وقوف ہے۔ ۹ ذی الحج کی صبح منٰی سے چلنا اور مغرب تک عرفات میں رہنا، پھر وہاں سے مزدلفہ واپس آنا۔ اس وقوف میں خطبہ بھی ہے اور نمازیں بھی ہیں، لیکن اس میں اصلاً وہ وقوف ہے کہ عرفات کے میدان میں وقت گزارا جائے اور موقع و ذوق کے مطابق تلبیہ، ذکر اذکار اور عبادات وغیرہ کی جائیں۔ یعنی اس میں اصل بات وقوف کی ہے کہ ۹ ذی الحج کا بڑا حصہ عرفات کے میدان میں گزارا جائے۔ قبیلہ قریش کے لوگ عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’’نحن حمس‘‘ کہ ہم خاص لوگ ہیں، وی آئی پی ہیں، اس لیے ہمارے لیے عرفات کا وقوف ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ وہ حرم کی حدود میں رہتے تھے۔ حرم کی حدود میں کچھ حصہ مِنٰی کا بھی ہے اور کچھ حصہ مزدلفہ کا بھی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ عرفات تک وہ لوگ جائیں جو باہر سے آئے ہیں اور جو غیر قریش ہیں۔ اس لیے باقی لوگ تو عرفات چلے جاتے تھے لیکن قریش والے حرم کی حدود میں رہتے تھے۔ یہ ان کا ایک امتیاز اور برتری سمجھی جاتی تھی۔ بخاری کی روایت ہے کہ جبیر ابن مطعمؓ جو طائف کے رہنے والے تھے، ان کے والد مطعمؓ ابن عدی وہی ہیں جنہوں نے حضورؐ پر طائف میں پتھراؤ کے بعد راستے میں آپؐ کو پناہ دی تھی۔ جبیر ابن مطعمؓ کہتے ہیں کہ میرے اونٹ گم ہو گئے تھے، میں اونٹوں کی تلاش میں عرفات تک آیا تو لوگ حج کر رہے تھے۔ وہاں عرفات کے میدان میں ایک خیمے کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ خیمہ حضرت محمد رسول اللہؐ کا ہے۔ جبیرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ وہ تو قبیلہ قریش میں سے ہیں اور ہاشمی ہیں، وہ یہاں کیا کر رہے ہیں! ان کا مقام تو حرم کی حدود کے اندر تھا اور انہوں نے تو عرفات میں نہیں آنا تھا۔
چنانچہ یہ قریش کے امتیاز کی جو رسم تھی قرآن مجید نے اس کو توڑا اور قریش کو حکم دیا کہ ’’ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ۔ ان اللہ غفور الرحیم‘‘ (البقرہ ۱۹۹) پھر تم بھی وہیں سے لوٹ کر (عرفات کا وقوف کر کے) واپس آؤ جہاں سے لوگ لوٹ کر آتے ہیں اور اللہ سے بخشش مانگو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اللہ رب العزت نے اس حوالے سے اونچ نیچ اور برتری کا تصور اور وی آئی پی سسٹم ختم کر دیا۔ لباس کے معاملے میں بھی ختم کیا اور عرفات کی حاضری کے معاملے میں بھی ختم کیا۔ چنانچہ نبی کریمؐ جو قبیلہ قریش میں تھے اور ہاشمی تھی، آپؐ خود عرفات تشریف لے گئے اور سارے صحابہ کرامؓ نے عرفات میں وقوف کر کے حج ادا کیا۔ اس طرح یہ بھی حج کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔
حضورؐ نے قرآن مجید کے حوالے سے حج کے نظام میں ایک تبدیلی مزید کی۔ ہوتا یوں تھا کہ جاہلیت کے زمانے میں مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگ اپنے گھروں سے احرام باندھ کر آتے تھے تو وہ حج کے ختم ہونے تک اپنے گھروں میں واپس جانا معیوب سمجھتے تھے۔ لیکن انہیں اگر کسی مجبوری کے تحت اپنے گھروں کو جانا پڑ جاتا تو اس کے لیے انہوں نے ایک حل نکال رکھا تھا۔ وہ گھر کے مرکزی دروازے کے بجائے گھر کے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر یا نقب لگا کر کسی طریقے سے گھر میں داخل ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم گھر کے جس دروازے سے احرام باندھ کر نکلے ہیں جب تک حج پورا نہیں ہو جاتا ہم اس دروازے سے گھر میں داخل نہیں ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس سے بھی منع فرما دیا ’’ولیس البر بأن تأتوا البیوت من ظہورھا ولکن البر من اتقی وأتوا البیوت من أبوابہا، واتقوا اللہ لعلکم تفلحون‘‘ (البقرہ ۱۸۹) اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ، اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گھروں میں دروازوں سے داخل ہو، یہ دروازے اسی لیے ہیں۔ کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور اس سے احرام یا حج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنے گھروں میں جا سکتے ہو لیکن سیدھے دروازے سے داخل ہو کر۔
حضورؐ نے مکہ مکرمہ میں حاضری کے لیے جب احرام کی پابندی لگائی کہ حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھ کر آؤ تو حرم کے چاروں طرف سے میقات کی حدود کا تعین کر دیا۔ یہ حدود جاہلیت کے زمانے میں نہیں تھیں۔ مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، عراق والوں کے لیے ذات العرق، اہل نجد والوں کے لیے قرن، شام کی طرف سے آنے والوں کے لیے جحفہ، اور یمن وغیرہ کے علاقوں کی طرف سے یلملم۔ حضورؐ نے حج و عمرہ کے لیے احرام باندھ کر آنے کو لازم قرار دیا اور اس کے ساتھ یہ حدود متعین کیں کہ حرم کے اردگرد اِن جگہوں سے آگے تم احرام کے بغیر نہیں آسکتے۔ یہ حضورؐ نے میقات مقرر فرمائے اور اس کے ساتھ احرام کی پابندیاں اور احرام کے مسائل و احکام متعین کیے کہ خوشبو کا استعمال نہیں ہوگا، میاں بیوی کا باہمی تعلق نہیں ہوگا وغیرہ۔ ان کے علاوہ دیگر پابندیاں بھی عائد کیں جو حج و عمرہ کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔ چنانچہ حضورؐ نے حج کے نظام میں یہ ایک بڑی تبدیلی کی جس سے حج ایک ڈسپلن اور سسٹم کے تحت چلنے لگا۔
جاہلیت کے زمانے کے حج میں یوں ہوتا تھا کہ لوگ عرفات سے دن کی روشنی میں ہی مزدلفہ کے لیے چل پڑتے تھے، جبکہ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے کے کافی عرصہ بعد منٰی جاتے تھے۔ حضورؐ نے اس سے منع فرمایا اور یہ متعین کیا کہ عرفات سے مزدلفہ کے لیے غروب آفتاب کے بعد نکلو اور دو نمازیں مزدلفہ میں اکٹھی پڑھو۔ اور پھر مزدلفہ سے منٰی جانے کے لیے طلوع آفتاب سے پہلے نکلو۔ حضورؐ نے اس پرانے طریقے سے منع فرما دیا کہ جس کے مطابق لوگ سورج غروب ہونے سے پہلے عرفات سے نکلتے تھے اور سورج طلوع ہونے کے بعد مزدلفہ سے نکلتے تھے۔ چنانچہ یہ اصلاح اور تبدیلی بھی حضورؐ نے فرمائی۔
ایک تبدیلی قرآن مجید نے مزید ذکر کی جو کہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سہولت ہے ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ (البقرہ ۱۹۸) تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ (حج کے دِنوں میں) اپنے رب کا فضل (معاش) تلاش کرو۔ جاہلیت کے دور میں قبائل میں یہ بات عام تھی کہ لوگ جب حج کے لیے آتے تھے تو حج کے دوران کوئی خرید و فروخت اور بیع و تجارت وغیرہ نہیں کرتے تھے۔ حج کے ایام میں اور حج کے دوران یہ بیع شراء کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن حج سے فارغ ہو کر پھر بڑے بڑے میلے لگتے تھے، عکاظ کا میلہ لگتا تھا، ذوالمجنہ کا میلہ لگتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے، تجارت کو مقصد بنا کر مت جاؤ لیکن اگر کسی چیز کی خرید یا فروخت کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو حج کے دوران اللہ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حج کے نظام کے متعلق یہ چند اصلاحات جو میرے مطالعہ میں آئیں وہ میں نے آپ حضرات کے سامنے قرآن و حدیث کے حوالے سے ذکر کی ہیں۔ حج کے حوالے سے ایک اور بات میں یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ حج کے شرعی تقاضوں کے علاوہ ایک اور تقاضہ بھی ہے، اور وہ ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری۔ اگرچہ یہ حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ حج کے سفر کے تقاضوں میں سے ہے۔ حضورؐ کی ایک روایت کا مفہوم بھی یہ ہے کہ جو بیت اللہ کے لیے آئے وہ مجھ سے ملنے کے لیے بھی آئے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ بات ویسے بھی قابل تصور نہیں ہے کہ وہ بیت اللہ میں تو جائے لیکن مسجد نبوی میں حاضری دیے بغیر اپنے ملک، اپنے گھر واپس آجائے۔ آج کے دور میں جو حج ہوتا ہے اس میں حاجی حضرات یہ دو تصور لے کر جاتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کریں گے اور روضۂ رسول پر حاضری دیں گے۔ چنانچہ مسلمان دنیا بھر سے حج و عمرہ کے لیے جاتے ہیں اور وہ حج سے پہلے یا بعد میں مسجد نبوی میں حاضری دیتے ہیں، وہاں نمازیں پڑھتے ہیں، روضۂ اطہر کے سامنے صلوٰۃ و سلام کہتے ہیں، جو کہ بڑے ثواب و اجر کی بات ہے۔ کچھ لوگ تو روضۂ رسول پر حاضری کو باقاعدہ حج کا منسک ہی سمجھتے ہیں، جو کہ شرعی منسک تو نہیں ہے لیکن بہرحال آداب کے تقاضوں میں سے ہے۔ یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے گھر اور حضورؐ کے روضۂ اطہر کی حاضری کی سعادت دیں۔
ہماری دعا ہے کہ جو حضرات حج کے لیے حرمین شریفین پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی حاضری اور حج قبول فرمائیں، اور ہمیں بلکہ سب مسلمانوں کو بار بار حاضری کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔