روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد نے ۱۲ فروری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہ ساجد علی نقوی صاحب کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا ہے جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے بارے میں یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہم پاکستان میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ ہمارا یہ موقف نہیں ہے اور ہم نے اسی لیے اپنی جماعت کا نام ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ سے تبدیل کر کے ’’تحریکِ جعفریہ‘‘ رکھ لیا ہے۔
نقوی صاحب دراصل پاکستان میں اہلِ تشیع کے جداگانہ تشخص اور حیثیت کے لیے شیعہ جماعتوں کے مسلسل مطالبات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تلخ صورتحال کی ذمہ داری سے پیچھے چھڑانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن اب شاید ایسا ممکن نہیں رہا، کیونکہ شیعہ علیحدگی پسندی اور اس کے اسی درجہ کے شدت پسندانہ ردعمل کی فصل نہ صرف پک چکی ہے بلکہ پوری قوم اس کے تلخ ثمرات سمیٹنے پر مجبور ہے۔
نقوی صاحب اس میدان میں نووارد ہیں اس لیے شاید ان کے علم میں نہ ہو البتہ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مرحوم صدر ایوب خان کے دور میں سید محمد دہلوی صاحبؒ کی سربراہی میں جداگانہ شیعہ حقوق کے لیے ملک بھر میں ایک مہم چلی تھی جس میں اہل تشیع کے لیے تعلیمی نصاب، اوقاف اور دیگر امور میں علیحدہ انتظامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے ردعمل میں اہل سنت کی مختلف جماعتوں کی ایک کانفرنس لاہور کے باغ بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوئی تھی، اور اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ ختمِ نبوت کے راہنما حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے اہل تشیع کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اجتماعی دھارے سے علیحدگی کا راستہ اختیار نہ کریں کیونکہ اس کے نتائج کو سمیٹنا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے فرمایا تھا کہ
’’عجیب بات ہے کہ قادیانیوں کو ہم الگ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ الگ ہونے کو تیار نہیں ہیں، اور تمہیں ہم ساتھ رکھنا چاہتے ہیں مگر تم علیحدگی کے لیے بے تاب نظر آتے ہو۔‘‘
اس موقع پر مولانا جالندھریؒ نے یہ بھی کہا تھا کہ
’’علیحدگی صرف الفاظ کا نام نہیں، اس کے کچھ منطقی نتائج بھی ہیں جو بہرحال قبول کرنا ہوں گے۔ اگر علیحدگی چاہتے ہو تو وہ صرف نصاب اور اوقاف تک محدود نہیں رہے گی بلکہ علیحدگی کی یہ تقسیم زندگی کے ہر شعبے میں ہو گی، پھر آبادی کا تناسب شمار ہو گا اور اسمبلیوں کی سیٹوں سے لے کر فوج اور سول کی ملازمتوں کے کوٹے تک ہر چیز تقسیم ہو جائے گی۔‘‘
ممکن ہے مولانا جالندھریؒ کے الفاظ یہ نہ ہوں مگر موچی دروازے کی سُنی کانفرنس میں ان کے مفصل خطاب کا خلاصہ یہی ہے جو ہم نے عرض کر دیا ہے۔ اس مرد درویش کی پکار صدا بصحرا ثابت ہوئی اور جداگانہ شیعہ مطالبات کی بات بدستور آگے بڑھتی رہی،
- حتٰی کہ سکولوں میں دینیات کا نصاب سنی شیعہ بنیادوں پر الگ الگ ہو گیا،
- اور کلمہ تک الگ کر دیا گیا تاکہ نئی نسل میں باہم مل بیٹھنے کا کوئی ایک نکتۂ اشتراک بھی باقی نہ رہے۔
- پھر انقلابِ ایران (۱۹۷۹ء) کے بعد بات اور آگے بڑھی، تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے نام پر مستقل جماعت کا قیام ضروری سمجھا گیا اور فقہ جعفریہ کے نفاذ کے نعرہ پر اسلام آباد میں وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کیا گیا۔
- اسی بنیاد پر اہلِ تشیع نے سینٹ میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کی مخالفت کی اور اہلِ سنت او راہلِ تشیع کو دو متحارب قوتوں کے طور پر آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔
ہمیں سپاہ صحابہؓ کے کے طریق کار سے کبھی اتفاق نہیں رہا اور ہر موقع پر ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے۔ حتٰی کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے کئی سال قبل سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں کے نام مطبوعہ مکتوب میں شدت پسندانہ طرزعمل کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے انہیں اس پر نظرثانی کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’’سپاہ صحابہؓ پاکستان‘‘ ایک ردعمل کا نام ہے جو جداگانہ شیعہ تشخص کی مسلسل محنت کے نتیجے میں نمودار ہوا اور جسے فطری طور پر کسی نہ کسی شکل میں بہرحال سامنے آنا ہی تھا۔
اس بنا پر ہم جناب ساجد علی نقوی سے گزارش کریں گے کہ اپنی جدوجہد کے تلخ نتائج کو ’’تن آور درخت‘‘ کی شکل میں سامنے دیکھ کر اب آنکھیں بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، حقائق کو تسلیم کریں اور تاریخ کے ریکارڈ کو درست رہنے دیں۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کا نام تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کی بجائے تحریک جعفریہ رکھ لیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے نام سے جماعت کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ اور کیا محض نام کی تبدیلی سے گزشتہ حقائق و واقعات کا تسلسل تاریخ کے اوراق سے محو ہو جائے گا؟
جبکہ ایک معروضی حقیقت یہ بھی ہے کہ نام صرف ایک دھڑے نے تبدیل کیا ہے اور تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کا دوسرا دھڑا جناب حامد علی موسوی کی قیادت میں اسی پرانے نام کے ساتھ بدستور سرگرمِ عمل ہے۔
آج سنی شیعہ مسلح تصادم نے جو شکل اختیار کر لی ہے وہ ہر باشعور شخص کے لیے تکلیف دہ اور پریشان کن ہے، دونوں طرف سے سینکڑوں افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اور متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایجنسیاں اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر اپنا ’’لچ‘‘ تل رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک اس کی ذمہ داری کا تعلق ہے، شیعہ لیڈرشپ محض نام کی تبدیلی یا تجاہلِ عارفانہ کے اظہار کے ساتھ اس سے دامن نہیں چھڑا سکتی کیونکہ تاریخی حقائق کا تسلسل آج بھی جناب ساجد علی نقوی اور ان کے رفقاء سے یہی کہنے پر مجبور ہے کہ