دینی جدوجہد کے عصری تقاضے اور مذہبی طبقات

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۱۰ء

متحرک جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کے بعد گزشتہ دو عشروں سے راقم الحروف دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں اور دینی جماعتوں اور طبقات کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ گزارشات پیش کر رہا ہے۔ معروضی حالات کے تناظر میں اس ’’صدائے فقیر‘‘ کے بعض پہلوؤں کو یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے:

  • پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے صرف سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کافی نہیں ہے بلکہ پبلک دباؤ اور عوامی قوت بھی اس کی ناگزیر ضرورت ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح غیر سیاسی دینی قوتیں اور جماعتیں بھی میدان میں متحرک رہیں۔ بالخصوص اس وقت ایک نئی دینی جماعت کی ضرورت ہے جو غیر سیاسی ہو اور مختلف مکاتبِ فکر کی نمائندگی کرتی ہو۔ ’’غیر سیاسی‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جماعت ووٹ، الیکشن، اور اقتدار کی سیاست سے الگ رہے۔ پاور پالیٹکس کا حصہ بننے کی بجائے مشترکہ دینی، ملی اور قومی مقاصد کے لیے تحریکی انداز میں کام کرے۔ اور رائے عامہ، عوامی دباؤ، اور اسٹریٹ پاور کے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرے جو دینی تحریکات کی اصل قوت ہوا کرتی تھی اور جو ہم نے خاصی حد تک کھو دی ہے۔
  • دینی جماعتوں اور حلقوں کے درمیان کشمکش اور ایک دوسرے کے کام کی نفی اور استخفاف و استحقار کا روز افزوں ذوق و مزاج ہمارے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے اور دینی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے انتہائی درجہ میں لازم ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے، ایک دوسرے کے کام کا احترام کیا جائے، اور باہمی مشاورت، مفاہمت اور تعاون کی فضا قائم کی جائے۔

    ہماری دینی جدوجہد خصوصاً نفاذِ اسلام کی تحریک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں کام کرنے والی بہت سی جماعتیں مسلکی دائروں میں محدود ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ نہیں پا رہیں۔ میں اس سلسلے میں یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ انقلابِ ایران کے بعد مجھے علماء کرام اور وکلاء کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے کا موقع ملا جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حافظ حسین احمد بھی شامل تھے۔ یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے۔ اس موقع پر ایک مجلس میں یہ سوال سامنے آیا کہ کیا پاکستان میں کوئی عالمِ دین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خمینی صاحب کی طرح ایک عوامی انقلاب کی قیادت کر سکے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک نہیں بلکہ ہمارے پاس دو شخصیات ایسی موجود تھیں جو خمینی بن سکتی تھیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی کے بعد مولانا مفتی محمودؒ یا مولانا شاہ احمد نورانیؒ میں سے جو بھی آگے بڑھتا، قوم اس کو خمینی کا مقام دینے کے لیے تیار ہوتی، مگر مصیبت یہ ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ آگے بڑھتے تو مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے پیروکار ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے اور اگر مولانا شاہ احمد نورانیؒ پیشرفت کرتے تو یہ بات مولانا مفتی محمودؒ کے پیروکاوں کے لیے قابل قبول نہ ہوتی۔

    ہمارے ہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا گیئر ہمیشہ اس مقام پر آکر پھنس جاتا ہے۔ یہ ایک معروضی حقیقت ہے جس کی جتنی بھی تاویل کر لی جائے مگر اس کے وجود سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میرے نزدیک کسی دینی جدوجہد یا تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو اور اس کے لیے میرے خیال میں قیامِ پاکستان سے پہلے کی ’’مجلسِ احرارِ اسلام‘‘ ایک اچھی مثال ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور دیگر طبقات کے اہلِ دانش نے مل کر ایک جماعت تشکیل دی اور مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو کر ملی و قومی مقاصد کے لیے عوامی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔

  • ہمارے دینی مدارس فکری تربیت کے حوالے سے بانجھ ہو چکے ہیں اور وہ فضا اب کسی حد تک بھی موجود نہیں ہے جو اب سے تیس برس پہلے تک مدارس میں فکری، اخلاقی بلکہ دینی تربیت کے حوالے سے دکھائی دیتی تھی۔ ہمارے طلبہ بلکہ مدرسین کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ہماری ماضی قریب کی دینی و ملی تحریکات کن مقاصد کے لیے تھیں، جنگِ آزادی میں کون کون سے حضرات نے قائدانہ کردار ادا کیا، اور دیگر ملی تحریکات کے اہداف کیا تھے۔ ہمارے مدارس میں ذہنی تیاری اور فکری تربیت کے دائرے محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں جس سے کنفیوژن اور ذہنی انتشار بڑھتا جا رہا ہے، اور اسی کنفیوژن اور ذہنی انتشار سے بہت سی پس پردہ قوتیں مسلسل ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ بڑے دینی مدارس اور وفاق المدارس کے سوچنے کا ہے مگر وہاں بھی اس کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

    اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کئی برس سے میرا معمول ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو ہفتہ وار لیکچر کی صورت میں انسانی حقوق، معاصر مذاہب کے تعارف، ماضی قریب کی دینی تحریکات، اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے فکری و علمی پہلوؤں کی طرف سرسری انداز میں توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو بہت سے طلبہ میرے منہ کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے میں اس دنیا کی نہیں بلکہ کسی اور دنیا کی بات کر رہا ہوں۔ اور شاید میں انہیں اس طرح ’’گمراہ‘‘ کر کے اکابر کے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

  • ہمارے ہاں فکری تربیت کے فقدان کا ایک نامحمود نتیجہ اور ثمرہ یہ بھی ہے کہ ہم سب نے خود کو اختلاف اور تنقید سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ فلاں صاحب نے آپ کے خلاف کتاب لکھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر انہیں میری کچھ باتوں سے اختلاف ہے تو ان پر لکھنا ان کا حق ہے۔ فرمانے لگے کہ انہوں نے آپ پر سخت تنقید کی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ان کا حق ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میرا موقف بھی لوگوں کے سامنے ہے، ان کا موقف بھی آ گیا ہے، لوگ خود فیصلہ کر لیں گے کہ کس کی بات درست ہے۔

    میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ جماعتِ اسلامی کے ساتھ ہمارا نصف صدی سے یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دستور میں صحابہ کرامؓ کو تنقید سے بالاتر تسلیم نہیں کیا، حالانکہ اہل سنت کا صدیوں سے یہ موقف ہے کہ صحابہ کرامؓ تنقید سے بالاتر ہیں۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ہم نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تنقید سے بالاتر ہونے والوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع کر لیا ہے جسے مزید وسیع کرتے جا رہے ہیں اور خود بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • نفاذِ شریعت کا راستہ روکنے کا کام عالمی سطح پر ہے اور بین الاقوامی لابیاں اس کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ ان کے کام کو سمجھنا، طریق واردات سے واقفیت حاصل کرنا، اور ان کے سدباب کے لیے منصوبہ بندی کرنا بھی دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ نفاذِ شریعت کے لیے سطحی نعرے بازی اور جذباتی تقریروں سے آگے بڑھ کر ذہن سازی، ہوم ورک، لابنگ، ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال، اور دینی قوتوں کا باہمی ربط و تعاون بھی ضروری ہے۔ ہمارے مدارس کے طلبہ، مدرسین، دینی جماعتوں کے راہنما اور کارکن، اور مساجد کے ائمہ و خطباء کی غالب اکثریت اسلام اور مغرب کے درمیان انسانی حقوق کے عنوان سے لڑی جانے والی عالمی ثقافتی جنگ سے سرے سے واقف نہیں ہے۔ اس لیے مدرسین اور طلبہ کو اس کے لیے تیار کرنا اور یونانی فلسفہ کی طرح مغربی فلسفہ کو تدریسی نصاب میں شامل کرنا دینی مدارس کے فرائض میں شامل ہے۔ اسی طرح علمی مسائل اور خاص طور پر جدید فکری اور ثقافتی مسائل پر باہمی بحث و مباحثہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور محاذ آرائی سے ہٹ کر علمی انداز میں اس بحث و مباحثہ کو آگے بڑھانے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter