ایک سوال مجھ سے چند سال پہلے ہوا تھا قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے۔ ایک صاحب نے پوچھا مولوی صاحب! یہ خالی لفظ رٹاتے ہیں اور سنتے ہیں سناتے ہیں، معنی کا پتہ نہیں ہوتا، ترجمے کا پتہ نہیں ہوتا، طوطے کی طرح رٹتے ہیں، طوطے کی طرح سنتے ہیں، طوطے کی طرح سناتے ہیں، تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ نہ معنٰی نہ مفہوم نہ کچھ نہ کچھ۔
میں نے ان سے کہا کہ بات یہ ہے کہ معنٰی و مفہوم سے انکار نہیں ہے، وہ قرآن کریم نے مستقل بیان کیا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے تلاوت کا محکمہ الگ بیان کیا ہے، تعلیم کا محکمہ الگ بیان کیا ہے۔ ’’یتلوا علیھم اٰیاتہ‘‘ مستقل کام ہے۔ اور ’’یعلمھم الکتاب‘‘ مستقل کام ہے۔ اس کے بیسیوں فوائد ہیں، میں نے کہا ایک فائدہ میں تھوڑا سا عرض کر دیتا ہوں۔
دو تین دوست تھے کراچی کے میرے پاس آئے، یونیورسٹی کے طلبہ تھے، انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب! ہم انٹرنیٹ پر بیٹھتے ہیں، کام کرتے ہیں، اور ویب سائٹس چیک کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم کے نام سے ویب سائٹس سامنے آتی ہیں، غیر مسلموں نے بہت بنا رکھی ہیں جو قرآن کریم کے الفاظ میں، اس کے جملوں میں، اس کی تراکیب میں گڑبڑ کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے بتایا کہ چار ویب سائٹس ہم چیک کر چکے ہیں، دو تین سورتوں کے پرنٹس بھی مجھے دیے انہوں نے، سورۃ الملوک وغیرہ، اس قرآن کریم کی طرز پر لفظ جوڑے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ویب سائٹس کے ذریعے سے قرآن کریم میں گڑبڑ ہو رہی ہے۔ پریشان تھے بیچارے، مسلمان کو پریشان ہی ہونا چاہیے۔
میں نے ان سے کہا کہ تمہاری پریشانی بجا ہے، ہر مسلمان کو قرآن کریم کے حوالے سے پریشان ہونا چاہیے، یہ ایمان کی علامت ہے، محبت کی علامت ہے، لیکن اس پریشانی کو مسلط کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، قرآن کریم کا کچھ نہیں بگڑتا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک نوجوان مجھ سے لڑنے لگا کہ جب سے میں نے یہ ویب سائیٹ دیکھی ہے قرآن کریم میں گڑبڑ والی مجھے تین دن سے نیند نہیں آ رہی، میں پریشان ہوں اور آپ اتنا ہلکا پھلکا لے رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا یار میں بھی ٹھیک کہہ رہا ہوں، تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو۔ تم تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک مومن کی حیثیت سے اپنی پریشانی کا اظہار کر رہے ہو، تمہارا حق یہی ہے، اور میں جو کہہ رہا ہوں میری بات سنو۔
یہ ویب سائٹس جنہوں نے بنائی ہیں جو قرآن کریم میں گڑبڑ کر رہے ہیں، سورتوں میں، جملوں میں، آیتوں میں، کتنی گڑبڑ کر لیں گے؟ ایک سو چودہ سورتوں کو ڈبل کر دیں گے؟ کسی سورت کی دس آیتوں کو پندرہ کر دیں گے؟ کچھ آیتیں نکال دیں گے؟ یہی کریں گے نا؟ میں نے کہا کہ اس سارے کام کو واچ کرنے کے لیے ہمیں کیا چاہیے؟ پندرہ سال کا بچہ جس نے قرآن کریم یاد کیا ہے اور چار پانچ مرتبہ سنا لیا ہے، یعنی اس کی منزل یاد ہے، ہماری حافظوں کی اصطلاح میں اس کی منزل پکی ہے یاد ہے۔ یہ مل جاتے ہیں یا نہیں؟ کہاں مل جاتے ہیں؟ بلکہ کہاں نہیں ملتے؟ دنیا کے ہر کونے میں ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک بچہ پندرہ سولہ سال کا منزل جس کی ٹھیک ہے، اس کو سامنے بٹھا دو۔ اس کو ایک دن لگے، دو دن لگیں، تین باتوں کی گارنٹی میں دیتا ہوں کہ وہ چھانٹی کر دے گا۔
(۱) وہ بتائے گا کہ یہ سورت قرآن کریم کی ہے اور یہ نہیں ہے۔
(۲) یہ آیت اس سورت کی ہے اور یہ نہیں ہے۔
(۳) یہ جملہ اس آیت کا ہے اور یہ نہیں ہے۔
ان تین باتوں کی گارنٹی تو میں دیتا ہوں۔ ایک لفظ کا ترجمہ نہیں جانتا، ایک آیت کا مفہوم نہیں جانتا۔ میں ترجمے کی نفی نہیں کر رہا، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ میں نے کہا کہ جس کام کو واچ کرنے کے لیے، جس کی چھانٹی کرنے کے لیے، چیک کرنے کے لیے پندرہ سال کا ایک بچہ کافی ہو، اس ورک سے قرآن کریم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔
ایک چھوٹی سی بات اور کہ دنیا کے کسی کونے میں قرآن کریم کوئی غلط چھاپ دیتا ہے، کئی لوگوں نے چھاپے بھی، قرآن کریم چھاپ کر گڑبڑ کر دے، امریکہ میں، آسٹریلیا میں، کہیں بھی، کیا ان کو قرآن کریم چیک کروانے کے لیے مدینہ منورہ بھیجنا پڑے گا کہ چیک کر کے بتاؤ صحیح ہے یا نہیں؟ وہیں کوئی نہ کوئی حافظ مل جائے گا وہ کہے گا کہ یہ قرآن کریم صحیح نہیں ہے۔ یہ زبانی پڑھنے کا ثواب و اجر اپنے مقام پر، لیکن یہ قرآن کریم کی حفاظت کا ایک ایسا مستحکم سسٹم ہے، فول پروف سسٹم ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے دنیا کے کسی کونے میں کسی زمانے میں قرآن کریم کے کسی لفظ کو آگے پیچھے کرنے کا سرے سے کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم کا حفاظتی سسٹم ہے۔ اور اس کے پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں، ایک فائدے کا میں نے ذکر کیا ہے۔