دینی مدارس میں شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر القرآن الکریم کا دائرہ بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور ملک بھر میں سیکڑوں مقامات پر یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس سے جہاں فہمِ قرآن کریم کے مختلف زاویے سامنے آتے ہیں، وہاں بہت سے طلبہ کی چھٹیاں بھی بے مصرف ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا دورہ تفسیر قرآن کریم ملک کے بڑے دوروں میں شمار ہوتا تھا، جس سے ہزاروں علماء کرام نے استفادہ کیا ہے۔ یہ دورہ کم و بیش دو عشرے جاری رہنے کے بعد ان کی زندگی میں ہی بند ہو گیا تھا، البتہ ان کے بعد یہ سلسلہ مختلف دوروں میں تقسیم ہو گیا ہے۔
- ریحان المدارس گوجرانوالہ میں مولانا محمد نواز بلوچ دورۂ تفسیر کے عنوان سے سیکڑوں طلبہ کو سرگرم رکھتے ہیں۔
- گکھڑ کے قریب باگڑیاں میں حاجی محمد نعیم بٹ کے مدرسہ میں مولانا داؤد احمد میواتی یہ خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
- جبکہ ہم بھی الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں کئی سالوں سے دورۂ تفسیر کی ایک کلاس جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے حضرت والد گرامیؒ کے تلامذہ مولانا ظفر فیاض، مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا فضل الہادی، مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا حافظ وقار احمد اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف کی بھی اس خدمت میں کچھ نہ کچھ شرکت ہو جاتی ہے۔ اس دورے میں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ ”احکام القرآن کا عصری تناظر اور علوم القرآن کے مختلف دائرے“ محاضرات کا موضوع ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ دورہ وسط رمضان المبارک تک ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
دورۂ تفسیر کے علاوہ ان تعطیلات کے دوران مختلف مقامات پر صرف و نحو، عربی زبان، میراث، رد قادیانیت، رد رفض اور دفاعِ حنفیت کے حوالے سے بھی ایک ہفتے سے دو ہفتے کے تربیتی کورسز ہوتے ہیں، جن کی افادیت و ضرورت کا اپنا ایک مستقل دائرہ ہے اور اس سال ان میں سے تین چار کورسز میں مجھے بھی شریک ہو کر مختلف موضوعات پر کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
- ۲۳ مئی کو سرگودھا میں مولانا محمد الیاس گھمن کے مرکز اہل سنت میں جاری کورس کی ایک نشست میں ”اجتہاد اور اس کے عصری تقاضوں“ کے بارے میں گفتگو کی۔
- ۲۸ مئی کو ضلع نارووال کے قصبہ ”اونچا کلاں“ میں مولانا افتخار اللہ شاکر کے سالانہ تربیتی کورس کی آخری نشست میں قادیانیت کے حوالے سے مختصر گفتگو کی اور شرکاء کو اسناد دینے کا شرف حاصل کیا۔
- شہزاد ٹاؤن اسلام آباد کی جامع مسجد محمدی میں ”مدارس فاؤنڈیشن“ کے زیر اہتمام دینی مدارس کے علماء کرام کے لیے شعبان المعظم کے دوران بیس روزہ میڈیا ورکشاپ منعقد کی گئی، جس میں مولانا عبد الرؤف محمدی اور ان کے رفقاء نے شرکاء کو میڈیا کی اہمیت و ضرورت اور اس کے تقاضوں سے متعارف کرایا۔ ۵ جون کو اس کورس کی آخری نشست میں راقم الحروف کو بھی شرکت اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔
- جبکہ یکم جون کو چناب نگر کے مرکز ختم نبوت میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سالانہ کورس کی ایک نشست میں قادیانیت کے بارے میں قدرے تفصیلی گفتگو کا موقع ملا، جس کا خلاصہ نذر قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور رد قادیانیت کے محاذ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہمارا سب سے بڑا فورم ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے مشن میں مسلسل مصروف عمل رہتا ہے اور چناب نگر کا یہ سالانہ تربیتی کورس بھی اسی کا حصہ ہے۔ مجھے آج آپ سے ایک دو حوالوں سے کچھ بات کرنی ہے۔ ایک یہ کہ قادیانی مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک الگ مذہب ہے جس کی بنیاد نبوت اور وحی کے دعویٰ پر ہے جس میں اسلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا قادیانیوں کے ساتھ بنیادی تنازعہ یہی ہے کہ جب وہ اسلام سے الگ ایک جداگانہ مذہب رکھتے ہیں تو انہیں اپنے نئے اور الگ مذہب کے لیے اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص اصطلاحات استعمال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
اس بات کو واضح کرنے کے لیے میں گزشتہ کئی عشروں سے مختلف فورموں پر یہ بات کہتا آرہا ہوں کہ نئے نبی اور نئی وحی کے ساتھ مذہب تبدیل ہو جاتا ہے، جس طرح عیسائی لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور توراۃ پر ایمان رکھنے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل پر ایمان لانے کی وجہ سے یہودیوں سے الگ ہوگئے تھے اور ان کا مذہب مسیحی مذہب کہلاتا ہے۔ اور جس طرح ہم مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور توراۃ و انجیل دونوں پر ایمان رکھنے کے باوجود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانے کی وجہ سے دونوں سے الگ ہوگئے ہیں اور یہودی یا عیسائی کہلانے کی بجائے مسلمان کہلاتے ہیں۔ اسی طرح قادیانی بھی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی وحی پر ایمان لانے کے بعد ایک الگ مذہب رکھتے ہیں اور مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں رہے۔
چنانچہ نئی نبوت کے غلط ہونے سے قطع نظر معروضی صورتحال کا منطقی اور فطری تقاضہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے لیے الگ نام طے کریں۔ وہ مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات استعمال نہ کریں اور خود کو خواہ مخواہ مسلمان کہلانے کی ضد چھوڑ دیں، ان کی اس بے جا ضد نے تنازعہ کو بلاوجہ طول دے رکھا ہے۔ اگر وہ اپنے بارے میں ملت اسلامیہ کا اجتماعی اور اجماعی فیصلہ قبول کر کے ہٹ دھرمی ترک کر دیں تو اس تنازعہ کی شدت بہت کم ہو جائے گی کیونکہ پاکستان میں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کا معاشرتی درجہ دستوری طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اور ان کے اس حیثیت سے پاکستانی معاشرہ کا حصہ رہنے اور ان کے شہری، مذہبی اور معاشرتی حقوق پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چنانچہ اگر انہیں پاکستان میں اپنے حقوق متاثر ہونے کی شکایت ہے تو اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں بلکہ خود قادیانیوں پر ہے کیونکہ تنازعہ حقوق کا نہیں معاشرتی اسٹیٹس کا ہے جو دستور میں طے ہے مگر اسے تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر کے قادیانیوں نے اس تنازعہ کو بلاوجہ باقی رکھا ہوا ہے۔
ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم دنیا پر یہ بات واضح نہیں کر پا رہے کہ جھگڑا حقوق کا نہیں بلکہ حقوق کے ٹائٹل کا ہے۔ جبکہ قادیانیوں نے باہر کی دنیا کو یہ باور کرا رکھا ہے کہ پاکستان میں ان کے مذہبی اور شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اسی بنیاد پر قادیانیوں کو بہت سے بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے جس فورم پر بھی موقع ملتا ہے میں یہ بات وضاحت کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔ چند سال قبل جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں بھی یہ بات میں نے قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کی تو اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر آنے کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں توجہ کے ساتھ سنا گیا اور بے شمار لوگوں نے اسے سراہا۔ اس کے رد عمل میں قادیانیوں نے انٹرنیٹ کے ایک پروگرام میں میری اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں پیغمبر آئے تھے اور ان پر وحی بھی آتی رہی ہے لیکن ان کے آنے سے مذہب تبدیل نہیں ہوا بلکہ یہودی مذہب کا عنوان مسلسل قائم رہا۔ اس لیے مولوی صاحب (یعنی زاہد الراشدی) کا یہ کہنا غلط ہے کہ نئے نبی اور نئی وحی کے آنے سے مذہب تبدیل ہو جاتا ہے۔ ‘‘
بادی النظر میں قادیانیوں کا یہ اعتراض معقول نظر آتا ہے اس لیے اس کا جواب میرے ذمہ ہے اور میں آج چناب نگر کی اس محفل میں یہ جواب عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں پیغمبر آئے تھے اور ان پر وحی آئی تھی۔ حتیٰ کہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے صاحب کتاب رسول آئے اور ان پر مستقل کتاب زبور نازل ہوئی مگر اس سب کچھ کے باوجود ان سب کا مذہب یہودی رہا اور مذہب کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ عیسائیوں کا مذہب یہودیوں سے الگ ہو جانے کی وجہ بھی نئی نبوت اور نئی وحی ہی تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل پر یہودیوں کا ایک حصہ ایمان لایا جو مسیحی کہلایا۔ اور اس وقت کی یہودی اکثریت نے ایمان لانے سے انکار کر دیا جو یہودی ہی رہے۔ یہ جو تفریق ہوئی اور ایک مذہب کے اندر سے دوسرا مذہب الگ ہوگیا اس کا باعث نئی نبوت اور نئی وحی بنی۔ ایمان نہ لانے والے اپنے سابقہ مذہب کے پیروکار رہے اور ایمان لانے والے نئے مذہب کے پیروکار کہلائے۔
غلط یا صحیح کی بحث اپنی جگہ پر ہے لیکن تاریخی تناظر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو بنی اسرائیل کے ان انبیاء کرام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن کے آنے سے مذہب تبدیل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ ایک شخص نے نئی نبوت اور وحی کا دعویٰ کیا جسے قبول کرنے سے امت مسلمہ نے مجموعی طور پر انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہ اور اس پر ایمان لانے والے پہلے مذہب کا حصہ رہنے کی بجائے نئے مذہب کے پیروکار کہلائے، اور ان کا مذہب ایک الگ اور مستقل مذہب کے طور پر متعارف ہوا۔
ہم قادیانیوں سے یہی بات کہہ رہے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نبوت اور وحی کے دعوے کو امت مسلمہ نے مجموعی طور پر قبول نہیں کیا اس لیے وہ امت مسلمہ کا حصہ نہیں رہے بلکہ ایک ایک الگ مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں اس تاریخی اور معروضی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دلیل و منطق اور تاریخی تسلسل کے دائرے میں ان کے مسلمانوں کا حصہ شمار ہونے کے دعوے کو کسی بھی درجہ میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قادیانی دنیا بھر کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی ان کے بقول مستقل نبی نہیں تھے بلکہ بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح امتی نبی تھے، اس لیے ان کے دعویٰ نبوت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ان کے اس دعویٰ کا ایک اور حوالہ سے جائزہ لینا چاہتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسیلمہ کذاب نے بھی اسی طرح کا دعویٰ کیا تھا۔
- وہ حضورؐ کو رسول اللہ مانتا تھا بلکہ پہلے ان کی رسالت کا اقرار کرتا تھا پھر اپنی نبوت کی بات کرتا تھا۔
- اس نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کی نیابت و خلافت کی درخواست کی تھی اور یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اپنی خلافت نہیں دیتے تو دیہات کی نبوت اس کے حوالہ کر دیں۔
اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں مسیلمہ کذاب کا دعویٰ نبوت ’’امتی نبی‘‘ اور ’’تابع نبی‘‘ کے طور پر تھا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ حضورؐ کے بعد کسی قسم کی نبوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے خواہ کوئی شخص مستقل نبی ہونے کا دعویٰ کرے یا تابع اور امتی نبی کہلائے۔ اس لیے قادیانیوں سے گزارش ہے کہ وہ امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کو بے جا تاویلات کے چکر میں ڈالے رکھنے کی بجائے نئی نبوت اور وحی سے دستبردار ہو کر امت مسلمہ کے اجتماعی دھارے میں متفقہ عقائد کی بنیاد پر واپس آجائیں، یا پھر خود کو ایک الگ اور مستقل مذہب کے پیروکار تسلیم کرلیں۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ اور آپشن باقی نہیں رہا۔