ایٹم بم اور چھوٹے ممالک

   
۱۷ اپریل ۱۹۸۷ء

برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر نے گزشتہ دنوں اپنے دورۂ روس کے دوران ماسکو ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اصولی طور پر چھوٹے ملکوں کی طرف سے ایٹم بم بنانے کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی چھوٹا ملک ایٹم بم کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ایٹم بم ہی قیامِ امن کا ضامن بنا تھا۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۱۱ اپریل ۱۹۸۷ء)

ایٹمی توانائی آج کے دور میں ایک قوت ہے جو دفاع اور ترقی دونوں شعبوں میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکی ہے لیکن عالمی قوتیں، جن میں خود برطانیہ بھی شامل ہے، ایک عرصہ سے ایٹمی ٹیکنالوجی پر بڑی قوتوں کی اجارہ داری قائم رکھنے اور چھوٹے ممالک بالخصوص عالمِ اسلام کو ایٹمی قوت سے محروم رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش چلی آرہی ہے کہ ایٹمی توانائی کا دائرہ بڑی طاقتوں کے مخصوص مفادات سے تجاوز نہ کرنے پائے۔

عالمِ اسلام اپنے گرد عالمی طاقتوں کی سازشوں کے حصار کے باعث ابھی تک جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے جائز حقوق اور وسائل سے محروم ہے اور جو مسلم ممالک ان عالمی سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود ایٹمی قوت کے حصول کی راہ پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی اور پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی سنٹر پر حملہ آور ہونے کی کوششیں اسی عالمی دہشت گردی کا ایک حصہ ہیں۔ ہمارا موقف شروع سے یہ رہا ہے کہ ایٹمی قوت پر کسی طاقت کی اجارہ داری نہیں ہے اور ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ترقی اور دفاع کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کی کوشش کرے۔ بالخصوص عالمِ اسلام کے لیے ایٹمی توانائی کا حصول اس لیے بھی ضروری ہے کہ قرآنِ کریم کے حکم کے مطابق وقت کی جدید ترین قوت کا حصول مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔

بہرحال اس پس منظر میں برطانوی وزیراعظم کی طرف سے ایٹم بم بنانے کے لیے چھوٹے ممالک کی کوششوں کی حمایت ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے جو ان طاقتوں کے موقف میں محسوس کی جا رہی ہے اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سچائی اور استحقاق ایک ایسی لازوال قوت ہے جسے زیادہ دیر نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسترد کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter