حضرت لاہوریؒ کی جدوجہد و خدمات کی ایک جھلک

   
۶ دسمبر ۲۰۱۹ء

شیرانوالہ گیٹ لاہور میں عالمی انجمن خدام الدین کا دو روزہ سالانہ اجتماع آج شروع ہوگیا ہے جو کل شام تک جاری رہے گا اور اس میں سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کے مشائخ اور متوسلین کے علاوہ علماء کرام اور کارکنوں کی بھرپور شرکت رہے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔ اجتماع کے اشتہار میں اسے ۱۰۲ واں اجتماع بتایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انجمن خدام الدین ایک صدی مکمل کر کے دوسری صدی میں داخل ہو گئی ہے اور یہ بات بہرحال خوشی کی ہے کہ اس کا تسلسل اور سرگرمیاں بدستور جاری ہیں، اللہ تعالٰی ترقیات اور ثمرات سے ہمیشہ بہرہ ور فرماتے رہیں، آمین۔

انجمن خدام الدین کا نام سامنے آتے ہی شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کی شخصیت اور ان کے تاریخی کردار کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور تاریخ اپنے اوراق پلٹتی چلی جاتی ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نور اللہ مرقدہ کے یہ مایہ ناز شاگرد اب سے ایک صدی قبل لاہور میں تشریف لائے تھے بلکہ انہیں اس شہر میں اس خیال سے برطانوی حکومت کی طرف سے نظربند کر دیا گیا تھا کہ تحریک آزادی کا یہ مفکر اور متحرک راہنما ایک انجانے شہر میں سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گا۔ مگر اس مرد درویش نے ایک چھوٹی سی مسجد میں خاموشی کے ساتھ اپنی تعلیمی اور اصلاحی جدوجہد کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات دنیا کے مختلف اطراف تک پھیلتے چلے گئے اور آج دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے تعلیمی و اصلاحی اثرات دکھائی نہ دے رہے ہوں۔ مجھے دنیا کے درجنوں ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے اور میرے یہ بیرونی اسفار کم و بیش تین عشروں کا تسلسل رکھتے ہیں، جس کے دائرے میں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ چاروں براعظم شامل ہیں، میں نے کم و بیش ہر جگہ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے براہ راست یا بالواسطہ استفادہ کرنے والے دیکھے ہیں، جو اپنی اپنی جگہ ان برکات و فیوض کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔

حضرت لاہوریؒ اصلاً حضرت شیخ الہندؒ کی اس تحریک کے باشعور اور باہمت راہنما تھے جس کا بنیادی ہدف استعماری نظام اور قوتوں سے وطن عزیز اور عالم اسلام کی گلوخلاصی کرانا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت کی روشنی میں پوری دنیا کی ایک متوازن، فطری اور قابل عمل نظام کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ حضرت لاہوریؒ نے اس کے لیے لاہور میں انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی اور قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کو باقاعدہ تعلیمی نظام کے طور پر رائج کرنے کے علاوہ امام ولی اللہ دہلویؒ کی مایہ ناز تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سے اہل علم کو روشناس کرانے کی محنت شروع کر دی۔ اس کے نتائج و اثرات کا احاطہ اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے، البتہ مثال کے طور پر اتنی بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے مغرب کی انتہا امریکہ اور مشرق کی انتہا ہانگ کانگ و ملائیشیا میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی طرز پر قرآن کریم اور حجۃ اللہ البالغۃ کے حوالہ سے علمی و فکری کام ہوتے دیکھا ہے۔

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی خدمات کا ایک دائرہ پاکستان میں نفاذ اسلام اور تحفظ ختم نبوت کی تحریکات بھی تھا، اور وطن عزیز میں انکار حدیث کے فتنہ کے تعاقب کے لیے بھی ان کی جدوجہد سب سے نمایاں رہی ہے۔ انہوں نے علماء کرام کی ایک بڑی اور تاریخی جماعت جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل نو کی سرپرستی کی اور الحاد و تجدد کے بہت سے رجحانات کے سامنے سد سکندری ثابت ہوئے۔ وہ بزرگ عالم دین، شیخ کامل، باشعور راہنما، اور متحرک قائد ہونے کے ساتھ ساتھ دینی تحریکات کے کارکنوں کے لیے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے، کارکنوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ خود بھی عملی محنت میں پیش پیش رہتے تھے۔

دینی تحریکات کے حوالہ سے حضرت لاہوریؒ کے ذوق و کردار کی ایک جھلک اس واقعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جو ابھی چند روز قبل مسجد حرام مکہ مکرمہ کے مدرس فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ تعالٰی نے اپنے درس میں بیان فرمایا ہے کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ممتاز شیعہ راہنما سید مظفر علی شمسی گرفتار ہو کر چند ماہ جیل میں رہے اور جب رہا ہو کر وہ گھر پہنچے تو انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کا خرچہ کیسے چلتا ہوگا؟ مگر انہیں گھر جا کر معلوم ہوا کہ لاہور کے ایک بزرگ ان کے گھر راشن پہنچاتے رہے ہیں، بعد میں پتہ چلا کہ وہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تھے۔ شمسی صاحب ان کی خدمت میں اظہار تشکر کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت لاہوریؒ نے فرمایا کہ آپ لوگ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جو قربانیاں دے رہے ہیں، ان پر ہمارا یہ حق تو بنتا ہے کہ ہم آپ لوگوں کے گھروں کی دیکھ بھال کریں۔

یہ حضرت لاہوریؒ کے کردار کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، آج جب ان کی جماعت اپنی خدمات کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے تو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اپنے توسل و تعلق پر بجا طور پر فخر محسوس ہوتا ہے، اللہ تعالٰی اس اجتماع کو کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter