امیر و غریب کا فرق اور اسلامی تعلیمات

   
تاریخ : 
۲۵ اپریل ۲۰۰۰ء

گزشتہ دنوں ضلع کرک کے خٹک جنید طاہر صاحب نے روزنامہ اوصاف میں شائع ہونے والے ایک مراسلہ کے ذریعہ دنیا میں ہر طرف پھیلی ہوئی بھوک، افلاس، بیماری اور احتجاج کی دہائی دی ہے۔ انہوں نے مراسلہ میں راقم الحروف کو بطور خاص خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلہ میں ان کی راہنمائی کی جائے۔ چنانچہ اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کے مراسلہ میں مذکور چند اشکالات کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔

خٹک صاحب نے عراق اور صومالیہ میں قحط، خوراک کی قلت، اور دوائیوں کے فقدان کے باعث مرنے والے لاکھوں انسانوں کا تذکرہ کیا ہے اور پوچھا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان اتنی تعداد میں بھوکے کیوں مر رہے ہیں؟ ان کا سوال یہ بھی ہے کہ ان کے معاشرہ میں امارت اور غربت کا اس قدر تفاوت کیوں ہے کہ غریب افراد محنت و مشقت کے سارے جتن کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی اور بیماری کی صورت میں علاج کی بنیادی ضروریات بھی مہیا نہیں کر پاتے، جبکہ حرام کمائی سے توندیں موٹی کرنے والے دنیا میں اکڑے پھرتے ہیں؟ اس سلسلہ میں مزید گفتگو سے پہلے خٹک صاحب کی خدمت میں دو باتوں کی وضاحت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک یہ کہ دنیا میں رزق اور زندگی کی ضروریات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ وہ رب المسلمین نہیں بلکہ رب العالمین ہے، اس لیے بھوک اور افلاس صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ امیر و غریب کا فرق اور وسائل زندگی کا تفاوت صرف افراد و طبقات میں نہیں بلکہ اقوام و ممالک بھی اسی عذاب کا شکار ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں دنیا کے ۷۷ ممالک کے گروپ کے سربراہی اجلاس میں امیر اور غریب اقوام کے درمیان وسائل زندگی کے ہوشربا تفاوت کی جو دہائی دی گئی ہے وہ بھی اسی پس منظر میں ہے۔ اس لیے اسے ایک اجتماعی انسانی مسئلہ کے طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا حل نکل آئے گا ورنہ ہم سب اپنے اپنے محدود دائروں میں کوہلو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے رہ جائیں گے۔

قرآن کریم نے اس سلسلہ میں راہ نمائی کی ہے اور اسلام نے اس مسئلہ کا حل پیش کیا ہے۔ لیکن وہ راہ نمائی اور حل صرف مسلمانوں کے فائدے کا نہیں بلکہ جو بھی اس سے استفادہ کرے گا اسے وہ حل فائدہ دے گا، خواہ وہ اسے قرآن کریم کے حوالہ سے اپنے دائرہ کار میں لائے یا اسلام کا نام لیے بغیر اس کے اصولوں کو اپنا لے۔ مثلاً شہد کی اپنی افادیت اور خاصیت ہے، اسے مریض کو استعمال کراتے ہوئے یہ بتا دیا جائے کہ یہ مکھی کے پیٹ سے نکلنے والی رطوبت ہے تب بھی اس کا وہی فائدہ ہوگا اور اگر نہ بتایا جائے اور مریض کو اس کا سرے سے علم نہ ہو تب بھی شہد کی افادیت اور خاصیت میں فرق نہیں پڑتا۔

قرآن کریم کی سورۃ شوریٰ کی آیت ۳۰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسانوں کو دنیا میں جو مصیبت بھی پیش آتی ہے وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسانوں کے تمام اعمال کا نتیجہ ان پر مسلط نہیں کرتا بلکہ بہت سی باتیں وہ معاف ہی کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ فاطر کی آخری آیت دیکھ لیں تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کو ان کے تمام اعمال کی سزا دینے لگے تو زمین پر ایک کیڑا بھی رینگنے نہ پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں انسانی سوسائٹی میں جن مصائب اور آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ خود ہمارے اعمال میں سے کچھ عملوں کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اس کی طرف سے اسباب سے ہٹ کر ملنے والی سزا کا پہلو بھی شامل ہے۔ اور اگر اسباب کے دائرہ میں دیکھا جائے تو بھی یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ انسانی معاشرہ کو صحیح طور پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں جب ان کی پابندی نہیں ہوگی تو معاشرے کا نظام بگڑ جائے گا۔ اور یہ بگاڑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ اصول و قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کی طرف سے ہوگا۔ جیسا کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی مشینری کو چلانے کے لیے مشینری بنانے والے کے بیان کردہ اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو مشینری کا نظام کس طرح بگڑ جاتا ہے۔

اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ یہ دنیا ضروریات پوری کرنے کی حد تک ہے، خواہشات کا پورا کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ آج تک کسی انسان کی خواہشات اس دنیا میں پوری ہوئی ہیں اور نہ پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تمام انسان ضروریات کے دائرہ میں رہیں گے تو اس دنیا کے موجودہ وسائل سے سب کا گزارہ ہوتا رہے گا، لیکن جونہی کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ توڑ کر خواہشات کی تکمیل کے خیال سے وسائل ذخیرہ کرنا شروع کر دیں گے تو ان چند لوگوں کی یہ ادھوری خواہشات بہت سے لوگوں کی حقیقی ضروریات کا خون کر دیں گی۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد کھلی آنکھوں سے افراد، طبقات، اور اقوام و ممالک کے ہر دائرہ میں کر رہے ہیں۔

دنیا میں انسانی آبادی اور اس کے لیے ضروری وسائل دونوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ کام دو الگ الگ محکموں کا نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان رابطہ کار کے فقدان اور ایک دوسرے کی کارگزاری سے بے خبری کا احتمال ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں جتنے انسان پیدا کیے ہیں ان کی ضروریات کے لیے وسائل بھی اتنے ہی پیدا فرمائے ہیں۔ آبادی اور وسائل میں عدم توازن کا جو شور مچایا جا رہا ہے یہ حقائق کے منافی ہے، اور وسائل کے بیشتر حصوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی اقوام نے اپنے استحصال پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ ورنہ اس وقت بھی دنیا میں جو وسائل موجود ہیں ان کی تقسیم اگر منصفانہ ہو تو موجودہ انسانی آبادی کی ضروریات کے لیے وہ کافی ہیں۔ اصل مسئلہ تقسیم کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وسائل پیدا کر کے امتحان اور آزمائش کے طور پر ان کی تقسیم کا کام انسانی معاشرہ پر چھوڑ دیا ہے ۔ اس تقسیم میں خدائی اصولوں کو نظر انداز کر کے کچھ گروہوں اور طبقات نے جو من مانی شروع کر رکھی ہے یہ سارا فساد اسی کا ہے اور پوری دنیا اسی فساد کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔

اسی سلسلہ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک ریاست کے وسائل سے استفادہ میں اس کے تمام شہریوں کا حق یکساں اور قومی خزانے کے ساتھ سب شہریوں کے برابر کے حقوق وابستہ ہیں۔ اب ان حقوق کو استعمال کرنے اور ان سے استفادہ کرنے میں افراد کی صلاحیتوں، توجہ، محنت، اور استعداد کے فرق سے کمی بیشی ہو جائے تو اس کی ذمہ داری ریاست پر نہیں ہے۔ لیکن قومی وسائل سے استفادہ کے حق میں ریاست کو اپنے شہریوں کے درمیان فرق قائم نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کا حوالہ دینا مناسب سمجھوں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ سریر آرائے خلافت ہوئے تو بحرین سے غنیمت کا مال بہت زیادہ مقدار میں آنے پر اس کی تقسیم کے معاملہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ اس کی تقسیم میں درجات قائم کیے جائیں اور نیکی کے مراتب کے لحاظ سے وظائف میں فرق رکھا جائے۔ اصحاب بدر کو سب سے زیادہ وظیفہ دیا جائے، مہاجرین کو اس سے کم، انصار کو اس سے کم، اور فتح مکہ کے بعد کے مسلمانوں کو اس سے بھی کم حصہ دیا جائے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ رائے قبول نہیں کی اور فرمایا کہ نیکی و مراتب کا تعلق آخرت سے ہے اس کے مطابق آخرت میں ثواب ملے گا۔ جبکہ یہ معیشت ہے اس میں برابری کا اصول ترجیح سے بہتر ہے۔

چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کی رائے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے قومی خزانے کی رقوم کی تقسیم اور وظائف میں برابری کا اصول قائم کر دیا جو ان کے دور خلافت میں قائم رہا۔ مگر ان کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے یہ اصول تبدیل کر کے اپنی رائے کے مطابق وظائف کی تقسیم میں ترجیحات قائم کر دیں اور پوری مدت خلافت میں اسی پر عمل کرتے رہے۔ لیکن جب نو دس سال میں ترجیحات قائم کرنے کے معاشرتی اثرات سامنے آئے تو حضرت عمرؓ کو اس کا احساس ہوا۔ اور یہ ان کے حق پرستی کی علامت ہے کہ امام ابویوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس معاملہ میں ان کی رائے درست نہیں تھی اور حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ درست تھا۔ اور انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے سال سے وہ طریق کار تبدیل کر کے حضرت صدیق اکبرؓ کے فیصلہ کے مطابق تقسیم کا نظام نئے سرے سے منظم کریں گے۔ لیکن اگلا مالی سال شروع ہونے سے قبل حضرت عمرؓ کی شہادت ہوگئی اور وہ اپنے اس فیصلہ پر عمل نہ کر سکے۔

مزید تفصیل کی اس مختصر کالم میں گنجائش نہیں اس لیے بطور خلاصہ یہی عرض ہے کہ دنیا میں بھوک، افلاس، غربت اور معاشرتی ناہمواری کی ذمہ داری خود انسانی برادری پر عائد ہوتی ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کا اپنے اپنے درجہ میں حصہ شامل ہے۔ اس لیے اس سے نجات اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنی خود ساختہ ترجیحات کو ترک کر کے اسلامی تعلیمات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور پھر دیکھیں کہ دنیا میں امن اور خوشحالی کا خوشگوار دور کس طرح قائم ہوتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter