گزشتہ جمعرات (۲ فروری) کو ایک روز کے لیے ڈیرہ غازی خان جانے کا اتفاق ہوا، نوجوان علماء کرام کی ایک تنظیم کے زیراہتمام سیرت کانفرنس سے خطاب کے علاوہ مدرسہ امداد العلوم شادن لنڈ کی ایک نشست میں حاضری ہوئی اور راجن پور میں حضرت مولانا سیف الرحمان درخواستی کے مدرسہ جامعہ شیخ درخواستی کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں شرکت کی سعادت بھی میسر آئی جس میں اس سال قرآن کریم حفظ مکمل کرنے والے بائیس طلبہ کی دستار بندی کی گئی۔ مگر اس سفر میں میرے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل میں منعقد ہونے والی وہ تقریب تھی جس کا اہتمام نوجوان علماء کرام کے ایک علمی و فکری فورم ’’شرکت علمیہ‘‘ نے کیا۔ یہ تنظیم مختلف دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان علماء نے قائم کر رکھی ہے جس میں مولانا مزمل کامران اور مولانا محمد ارشاد متحرک کردار ادا کر رہے ہیں اور ہمارے عزیز شاگرد مولانا حسنین اعجاز (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
شرکت علمیہ نے مختلف طبقات کے منتخب افراد کے اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا جن میں پروفیسرز، ڈاکٹرز، وکلاء، علماء کرام، شعراء اور سرکاری افسران شامل تھے، جبکہ موضوع بحث یہ بات تھی کہ معاشرہ کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے علماء کرام اور دیگر طبقات کے درمیان رابطہ و تعاون کی فضا پیدا کرنا کس حد تک ضروری ہے اور اسے کس طرح قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔ مولانا مزمل کامران نے ’’شرکت علمیہ‘‘ کی چند سالوں سے جاری سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ مختلف طبقات کے ارباب دانش اور علماء کرام کے درمیان رابطہ و تعاون اور مفاہمت و مشاورت کا ماحول قائم کیا جائے۔ اس مجلس میں مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات کی موجودگی اور ایجنڈے سے ان کی دلچسپی سے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ شرکت علمیہ کی محنت کا انداز اور اس کی سطح کیا ہے اور یہ ماحول دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی تھی۔
مولانا مزمل کامران کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ علماء کرام کے ساتھ رابطہ و مفاہمت کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے مختلف شعبوں میں روز مرہ کی مصروفیات اور کام شرعی تقاضوں کے مطابق نہیں ہو رہے اور اس کی بڑی وجہ یہی عدم رابطہ ہے۔ اگر آپس میں میل جول اور مشاورت ہو تو بہت سے کاموں کو اس رابطہ و مشاورت کے ذریعے صحیح رخ پر لایا جا سکتا ہے۔ جبکہ علماء کرام کو بہت سے معاملات کو عملی طور پر سمجھنے میں اسی عدم رابطہ کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ صحیح طور پر راہنمائی نہیں کر پاتے۔ مثلاً طلاق کا مسئلہ لے لیں، طلاق دینے والے اکثر حضرات عدالتوں کے عرضی نویسوں سے رجوع کرتے ہیں اور عرضی نویس حضرات چونکہ طلاق کی مختلف صورتوں اور ان کے احکام سے واقف نہیں ہوتے اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ ایسے لوگوں کو صحیح طریقہ سے طلاق دینے کے بارے میں بریف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے بلکہ الٹا چند رٹے رٹائے الفاظ لکھ کر ان پر لکھوانے والے سے دستخط کروا لیتے ہیں جس سے معاملہ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ عرضی نویسوں کی غالب اکثریت نے تین طلاق اور طلاق مغلظہ کے جملے ذہن میں پختہ کیے ہوئے ہیں اور وہ ہر طلاق نامے پر وہی متعین جملے لکھ دیتے ہیں جس سے طلاق دینے والا شخص پھنس جاتا ہے اور پھر طلاق ہوئی ہے یا نہیں ہوئی اور ایک طلاق ہوئی ہے یا تین؟ اس سوال پر مختلف مکاتب فکر کے مفتیان کرام کے درمیان چکر کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی بجائے اگر عرضی نویس کو شرعی مسائل معلوم ہوں اور طلاق کی نزاکتوں کا احساس ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ طلاق کے لیے آنے والے کو پہلے سمجھائے اور طلاق کی مختلف صورتوں اور ان کے عملی نتائج سے آگاہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا غصہ کم کرنے کی بھی کوشش کرے تاکہ رٹے رٹائے جملے لکھ کر اس سے دستخط کرا لینے سے جو صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اس سے بچا جا سکے۔
اس نشست میں شریک ہائیکورٹ کے وکیل ملک طالب حسین ایڈووکیٹ نے اس بات کی تائید کی اور کہا کہ اس قسم کی الجھنوں کا باعث دینی مسائل سے بے خبری بنتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا سماجی رویہ بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں رکاوٹ بنتا ہے، اس لیے کہ عمومی مزاج یہ ہے کہ مختلف صورتیں سامنے آنے پر ہمارا انتخاب عام طور پر اس صورت کا ہوتا ہے جس میں ہمارا وقتی مفاد ہو اور اس وقت دینی و اخلاقی تقاضے ہمارے پیش نظر نہیں رہتے۔ انہوں نے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جب کوئی بالغ لڑکا یا لڑکی ماں باپ کی مرضی کے بغیر نکاح کر لیتے ہیں تو قانون اس نکاح کو تسلیم کرتا ہے، مگر بہت سے ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں پھنسانے کے لیے اس سے پہلے کی تاریخ (بیک ڈیٹ) میں لڑکی کا نکاح رجسٹرڈ کرا کے اس نئے نکاح سے پیچھا چھڑایا جائے۔ ایسی صورت میں بیک ڈیٹ کا نکاح قانوناً تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ شرعی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس قسم کے مسائل دو وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ایک یہ کہ شرعی قوانین و مسائل سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی اور دوسری یہ کہ ہر صورت میں اپنا مفاد اور مقصد حاصل کرنے کا عمومی مزاج صحیح راستہ اختیار کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ملک طالب حسین کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو بہتر بنانے اور لوگوں میں دینی و اخلاقی شعور بیدار کرنے کے لیے علماء کرام اور وکلاء کے درمیان رابطہ و مفاہمت ضروری ہے جس کے بہت سے مثبت اور مفید نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
میڈکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ایک الجھن بھی اس مجلس میں سامنے آئی جب یہ بتایا گیا کہ اسقاط حمل کے ایک کیس میں زچہ و بچہ کی صحت و زندگی کا مسئلہ پیدا ہوا اور مفتیان کرام سے رجوع کیا گیا تو جواب ملنے میں دو ہفتے لگ گئے جبکہ فیصلے کا وقت گزر چکا تھا۔ یہ مسئلہ بھی باہمی رابطہ کا کوئی نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے معروف معالج ڈاکٹر ملک غلام عباس شریک محفل تھے، انہوں نے بھی اس کی تائید کی کہ مختلف شعبوں کے لوگوں کا علماء کرام کے ساتھ رابطہ ضروری ہے کیونکہ یہ ہم پر لازم ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے اپنے کام کے دینی تقاضوں اور اخلاقیات سے آگاہی حاصل کریں اور اپنی عملی زندگی میں ان کا لحاظ رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہانہ محافل کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ میں دروس قرآن کا پروگرام بھی ہونا چاہیے۔
راقم الحروف نے بھی کچھ گزارشات پیش کیں اور اس امر پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ علماء کرام، وکلاء، ڈاکٹر صاحبان، پروفیسر اور ادب و صحافت سے تعلق رکھنے والے سرکردہ حضرات نے باہم مل بیٹھنے کی ضرورت محسوس کی ہے اور اسے آگے بڑھانے کا عزم و جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ ضرورت دوسرے طبقات کے ساتھ ساتھ خود علماء کرام کی بھی ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور مختلف شعبوں میں لوگوں کے اندازِ زندگی اور معمولات سے واقف ہوں تاکہ وہ سوسائٹی کی راہنمائی کے لیے اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکیں۔