جامعہ حفصہ ۔ مذاکرات کے بعد

   
تاریخ : 
۸ دسمبر ۲۰۰۷ء

جامعہ حفصہ کے المیہ کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ اس قضیہ کے آغاز سے ہی میں نے اس کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھنا شروع کر دیے تھے جو روزنامہ اسلام، روزنامہ پاکستان، ماہنامہ الشریعہ اور ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس عنوان پر لکھے گئے میرے بیس مضامین کا مجموعہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے ایک سو تیس صفحات پر مشتمل کتابچہ کی صورت میں شائع کر دیا ہے اور میرے خیال میں اس کے کسی پہلو پر مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، البتہ ایک پہلو تشنہ رہا اور میری خواہش تھی کہ اگر اس کے بارے میں براہ راست کچھ معلوم ہو جائے تو اسے بھی اپنی گزارشات کے ریکارڈ میں لے آؤں۔

وہ پہلو یہ ہے کہ جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف افسوسناک مسلح آپریشن سے قبل رات اڑھائی بجے حکومتی ٹیم کے ساتھ ہمارے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے اور ہم مذاکرات میں مزید پیشرفت سے قطعی طور پر مایوس ہو کر وہاں سے اٹھ کر آ گئے تو اس کے بعد بھی یہ مذاکرات مولانا فضل الرحمن خلیل کے ذریعے ڈیڑھ دو گھنٹے جاری رہے اور ان مذاکرات کے دوران ہی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔ ان مذاکرات میں کیا باتیں ہوئیں اور کون سا لمحہ اور آخری پوائنٹ تھا جہاں مذاکرات کو سبوتاژ کر کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد پر آتش و آہن کی بارش کر دی گئی؟ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کسی ٹی وی چینل کو اس کی تفصیلات بتائی تھیں مگر میں چونکہ چینلز دیکھنے کا عادی نہیں کہ اس کا وقت ہی نہیں ملتا اور اس سلسلے میں مجھے جو کچھ معلوم ہوا، وہ زبانی طور پر مختلف دوستوں کے ذریعے یا بعض کالم نویس دوستوں کی تحریروں سے معلوم ہوا، جب کہ میری عادت ہے کہ کسی موضوع پر، خاص طور پر اس قسم کے حساس موضوع پر جب تک براہ راست معلومات حاصل نہ کر لوں، قلم نہیں اٹھاتا، اس لیے اس انتظار میں خاموش رہا کہ مولانا فضل الرحمن خلیل سے کسی وقت ملاقات ہوئی تو ان سے براہ راست دریافت کروں گا، مگر ایسا کوئی موقع نہ نکل سکا اور میرا معمول کا بیرونی سفر شروع ہو گیا۔ کافی انتظار کے بعد گزشتہ ہفتے کے دوران ایک دوست کے ہاں مولانا فضل الرحمن خلیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان مذاکرات کے آخری حصے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جو قارئین کی نذر کی جا رہی ہیں۔

اس سے قبل بطور یاد دہانی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے آخری شب کے مذاکرات جن میں ایک طرف سے مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا قاری حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان، راقم الحروف اور دوسرے حضرات تھے، جب کہ دوسری طرف چودھری شجاعت حسین، اعجاز الحق، محمد علی درانی اور طارق عظیم تھے جبکہ مولانا غازی عبد الرشید شہید کی خواہش پر مولانا فضل الرحمن خلیل کو بطور خاص ان مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا، ۹ جولائی کو رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ وہ مذاکرات اس نکتہ پر ٹوٹے تھے کہ اس سے دو گھنٹے قبل مصالحت کے جس مسودہ پر دونوں ٹیموں میں اتفاق رائے ہو گیا تھا اور غازی عبد الرشید شہید نے بھی فون پر اسے سماعت کر کے اس سے اتفاق کر لیا تھا، وہ مسودہ ایوان صدر سے قبولیت حاصل نہ کر سکا، اور جب وزراء کی ٹیم اڑھائی بجے شب کے لگ بھگ ایوان صدر سے واپس آئی تو ان کے ہاتھ میں ایک نیا مسودہ تھا جس میں:

  1. غازی عبد الرشید شہید کو گرفتار نہ کرنے،
  2. لال مسجد میں موجود افراد کو اس قضیہ کے آغاز کے بعد درج شدہ کسی مقدمہ میں گرفتار نہ کرنے،
  3. اور جامعہ حفصہ کو وفاق المدارس کے سپرد کرنے

کی شرائط کو مسترد کر دیا گیا تھا اور دوٹوک طور پر یہ کہہ دیا گیا تھا کہ یہ مسودہ حتمی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوگا، اس کا ہاں یا ناں میں جواب دیا جائے اور اس کے لیے بھی صرف نصف گھنٹہ کی گنجائش ہے۔ جب کہ غازی عبد الرشید شہید نے اس دوسرے مسودہ کو فون پر سن کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس پر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی سربراہی میں مذاکرات کرنے والی ہماری ٹیم نے مذاکرات اور مصالحت میں مزید پیشرفت کی کوئی گنجائش نہ دیکھتے ہوئے وہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمیں صاف طور پر نظر آرہا تھا کہ سرکاری فورسز بہرحال یہ آپریشن کرنا چاہتی ہیں اور انہیں اس سے باز رکھنے کی کوئی قابل عمل صورت ہمارے سامنے موجود نہیں تھی، البتہ یہ ہمارے علم میں آگیا تھا کہ ہمارے چلے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمن خلیل کے ذریعے مذاکرات کو جاری رکھنے کی ایک اور کوشش ہو رہی ہے بلکہ اس کا اندازہ ہمیں وہاں سے روانہ ہونے سے قبل ہی ہو گیا تھا کہ اب فریقین مزید گفتگو مولانا فضل الرحمن خلیل کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کے بعد اپنے اپنے موبائل فون بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، کیونکہ میڈیا مسلسل تعاقب میں تھا اور ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ میڈیا کے ساتھ ہماری کوئی بات ان مذاکرات پر اثر انداز ہو اور خدانخواستہ ہماری وجہ سے ان میں کوئی رکاوٹ پڑ جائے۔

اس سے آگے مولانا فضل الرحمن خلیل کی بات شروع ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے جانے کے بعد انہوں نے فون پر غازی عبد الرشید شہید سے دوبارہ رابطہ کیا اور خاصی دیر تک گفتگو کرتے رہے جس میں انہوں نے غازی عبد الرشید شہید پر زور دیا کہ وہ مصالحت کے اس سرکاری مسودہ کو قبول کر لیں اور اپنی شرائط پر زور دینے کی بجائے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیں۔ اس کے لیے غازی عبد الرشید شہید ابتدا میں تیار نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رات کو علماء کرام کی ٹیم کے ذریعے جو معاملات طے ہوئے تھے اور جس مسودہ پر انہوں نے بھی اتفاق کر لیا تھا، وہ اسی پر قائم ہیں اور سرکاری شرائط پر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمن خلیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے غازی عبد الرشید شہید کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا اور ان پر مسلسل زور دیتے رہے کہ وہ اپنی شرائط پر اس قدر زور نہ دیں جس پر بالآخر وہ آمادہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، وہ اپنی شرائط سے دستبردار ہوتے ہیں اور لال مسجد سے باہر آنے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن خلیل نے اس سے چودھری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء کو آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور ’’اوپر‘‘ بات کی تو ان سے کہا گیا کہ ٹھیک ہے، غازی عبد الرشید سے کہیں کہ وہ اس پر اپنی آمادگی کی علامت کے طور پر اندر موجود افراد میں سے تین چار کو باہر بھیجیں تاکہ اس بات کا اعتماد ہو جائے کہ وہ واقعی اس کے لیے تیار ہیں۔ غازی عبد الرشید شہید سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جب وہ خود باہر آنے کو تیار ہیں تو پھر اس شرط کی کیا ضرورت ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ہم اس کو ضروری سمجھتے ہیں، چنانچہ تھوڑے بہت اصرار کے بعد وہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے اور کہا کہ وہ اپنے چار پانچ ساتھیوں کو علامت کے طور پر باہر بھیج دیتے ہیں۔ یہ بات ’’اوپر‘‘ پہنچائی گئی تو جواب آیا کہ چار پانچ نہیں بلکہ پندرہ بیس افراد باہر بھجوائے جائیں۔ غازی عبد الرشید شہید سے بات ہوئی تو انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا کہ یہ شرطیں خواہ مخواہ لگائی جا رہی ہیں اور دراصل سرکاری فورسز مصالحت کے لیے تیار ہی نہیں، مگر مولانا فضل الرحمن خلیل کے اصرار پر وہ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے اور کہا کہ آپ جتنے ساتھی کہتے ہیں، میں علامت کے طور پر بھجوا دیتا ہوں۔

مولانا فضل الرحمن خلیل کا کہنا ہے کہ غازی عبد الرشید شہید کی طرف سے اس ہاں کے بعد وہ جب یہ بات چودھری شجاعت حسین کو بتانے گئے تو وہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ پریس کانفرنس رکوا کر انہیں اس بات کی اطلاع دی گئی مگر ابھی انہیں یہ بتایا جا رہا تھا کہ دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور آپریشن کا آغاز ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمن خلیل کے بقول انہوں نے اس بات کے بعد غازی عبد الرشید شہید سے بات کی اور انہیں تسلی دینے کی کوشش کی کہ آپریشن رکوانے کی کوئی صورت نکالی جا رہی ہے جبکہ انہوں نے سرکاری ٹیم سے کہا کہ جب غازی عبد الرشید سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں تو اس آپریشن کو فوری طور پر رکوایا جائے اور حملے بند کروائے جائیں تاکہ اندر موجود افراد کو پرامن طور پر باہر لانے کی تدبیر کی جائے۔ چودھری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء نے متعلقہ فورسز کے افسران سے بات کی مگر حملے رکوانے کی کوئی درخواست کارگر نہ ہو سکی اور جس خوفناک آپریشن کی کئی روز سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں، وہ بالآخر غازی عبد الرشید اور ان کے ساتھ معصوم طالبات اور دیگر افراد کی شہادت اور جامعہ حفصہ کے افسوس ناک انہدام تک جاری رہا۔

یہ تفصیل اس سے قبل بھی سامنے آچکی ہے، لیکن میں اسے اپنی گزارشات کا حصہ بنانا بھی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ تاریخ کا ریکارڈ صحیح رہے اور مستقبل کے مؤرخ کو اس سلسلے میں اپنی رائے قائم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

   
2016ء سے
Flag Counter